تمہارا
نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی
بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری
یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم
میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں ہنس
کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں
گلے جب
اس کے لگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
نہ جانے
ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے
بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
وہ سب
گزرے ہوئے لمحے مجھ کو یاد آتے ہیں
تمہارے
خط جو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں
سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم
چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہر اک
مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی
چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بڑے
لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں
سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ترے
کوچے سے اب مرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب
بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں
موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصی میں
جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
***
No comments:
Post a Comment