کرشن چندر اردو کے نامور افسانہ نگار
تھے۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (موجودہ
پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ کرشن چندر کی
تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی
تھی۔ انہوں نے 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی
سے ایم ۔اے۔ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے قانون کی پڑھائی بھی کی تھی۔
کرشن چندر کے معاصرین میں سعادت حسن
منٹو اور راجندر سنگھ بیدی تھے۔ خامہ فرسائی کے زریں دور کی بات کریں توپتہ چلتا
ہے کہ کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کی
کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کا فی
مقبول ہوئے تھے۔
کرشن چندر نے کئی فلموں کی کہانیاں،
منظرنامے اور مکالمے لکھے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘،
’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو پردہ سیمیں
پر پیش کیا۔
8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال
ہو گیا تھا۔(بشکریہ ویکیپیڈیا)
اور
اب میں یہاں آپ کے سامنے کرشن چندر کا نہایت ہی مشہور افسانہ " ایک طوائف کا خط" پیش کرنے جا رہا ہوں اُمید
ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔
کرشن
چندر
مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا
خط نہ ملا ہو گا۔ یہ بھی امید کرتی ہوں کہ کہ آج تک آپ نے میری اور اس قماش کی
دوسری عورتوں کی صورت بھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کو میرا یہ خط
لکھنا کس قدر معیوب ہے اور وہ بھی ایسا کھلا خط مگر کیا کروں حالات کچھ ایسے ہیں
اور ان دونوں لڑکیوں کا تقاضا اتنا شدید ہو کہ میں یہ خط لکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ
خط میں نہیں لکھ رہی ہوں، یہ خط مجھ سے بیلا اور بتول لکھوا رہی ہیں۔ میں صدق دل سے معافی چاہتی ہوں، اگر میرے خط میں
کوئی فقرہ آپ کو ناگوار گزرے۔ اسے میری مجبوری پر محمول کیجئے گا۔
بیلا
اور بتول مجھ سے یہ خط کیوں لکھوا رہی ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں کون ہیں اور ان کا
تقاضا اس قدر شدید کیوں ہے۔ یہ سب کچھ بتانے سے پہلے میں آپ کو اپنے متعلق کچھ
بتانا چاہتی ہوں، گھبرایئے نہیں۔ میں آپ کو اپنی گھناؤنی زندگی کی تاریخ سے آگاہ
نہیں کرنا چاہتی۔ میں یہ بھی نہیں بتاؤں گی کہ میں کب اور کن حالات میں طوائف بنی۔
میں کسی شریفانہ جذبے کا سہارا لے کر آپ سے کسی جھوٹے رحم کی درخواست کرنے نہیں آئی
ہوں۔ میں آپ کے درد مند دل کو پہچان کر اپنی صفائی میں جھوٹا افسانہ محبت نہیں
گھڑنا چاہتی۔ اس خط کے لکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو طوائفیت کے اسرارو رموز
سے آگاہ کروں مجھے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا ہے۔ میں صرف اپنے متعلق چند ایسی
باتیں بتانا چاہتی ہوں جن کا آگے چل کر بیلا اور بتول کی زندگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔
آپ
لوگ کئی بار بمبئی آئے ہوں گے جناح صاحب نے تو بمبئی کو بہت دیکھا ہو مگر آپ نے
ہمارا بازار کاہے کو دیکھا ہو گا۔ جس بازار میں میں رہتی ہوں وہ فارس روڈ کہلاتا
ہے۔ فارس روڈ، گرانٹ روڈ اور مدن پورہ کے بیچ میں واقع ہے۔ گرانٹ روڈ کے اس پار
لمنگٹم روڈ اور اوپر ہاؤس اور چوپاٹی میرین ڈرائیور اور فورٹ کے علاقے ہیں جہاں
بمبئی کے شرفا رہتے ہیں۔ مدن پورہ میں اس طرف غریبوں کی بستی ہو۔ فارس روڈ ان
دونوں کے بیچ میں ہے تاکہ میرا اور غریب اس سے یکساں مستفید ہو سکیں۔ گور فارس روڈ
پھر بھی مدن پورہ کے زیادہ قریب ہے کیونکہ ناداری میں اور طوائفیت میں ہمیشہ بہت
کم فاصلہ رہتا ہے۔ یہ بازار بہت خوبصورت نہیں ہے، اس کے مکین بھی خوبصورت نہیں ہیں
اس کے بیچوں بیچ ٹرام کی گڑ گڑاہٹ شبو روز جاری رہتی ہے۔ جہاں بھر کے آوارہ کتے
اور لونڈے اور شہدے اور بے کار اور جرائم پیشہ مخلوق اس کی گلیوں کا طواف کرتی نظر
آتی ہے۔ لنگڑے، لولے، اوباش، مدقوق تماش بین۔ آتشک د سوزاک کے مارے ہوئے کانے،
لنجے، کوکین باز اور جیب کترے اس بازار میں سینہ تان کر چلتے ہیں۔ غلیظ ہوٹل، سیلے
ہوئے فٹ پاتھ پر میلے کے ڈھیروں پر بھنبھناتی ہوئی لاکھوں مکھیاں لکڑیوں اور
کوئلوں کے افسردہ گودام، پیشہ ور دلال اور باسی ہار بیچنے والے کوک شاستر اور ننگی
تصویروں کے دکان دار چین حجام اور اسلامی حجام اور لنگوٹے کس کر گالیاں بکنے والے
پہلوان، ہماری سماجی زندگی کا سارا کوڑا کرکٹ آپ کو فارس روڈ پر ملتا ہے۔ ظاہر ہے
آپ یہاں کیوں آئیں گے۔ کوئی شریف آدمی ادھر کا رخ نہیں کرتا، شریف آدمی جتنے ہیں
وہ گرانٹ روڈ کے اس پار رہتے ہیں اور جو بہت ہی شریف ہیں وہ ملبار ہل پر قیام کرتے
ہیں۔ میں ایک بار جناح صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گزری تھی اور وہاں میں نے جھک کر
سلام بھی کیا تھا بتول بھی میرے ساتھ تھی۔ بتول کو آپ سے (جناح صاحب) جس قدر عقیدت
ہے اس کو میں کبھی ٹھیک طرح سے بیان نہ کر سکوں گی۔ خدا اور رسول کے بعد دنیا میں
اگر وہ کسی کو چاہتی ہو تو صرف وہ آپ ہیں۔ اس نے آپ کو تصویر لاکٹ میں لگا کر اپنے
سینے سے لگا رکھی ہو۔ کسی بری نیت سے نہیں۔ بتول کی عمر ابھی گیارہ برس کی ہے،
چھوٹی سی لڑکی ہی تو ہے وہ۔ گو فارس روڈ والے ابھی سے اس کے متعلق برے برے ارادے
کر رہے ہیں مگر خیر وہ کبھی بھی آپ کو بتاؤں گی۔ تو یہ ہے فارس روڈ جہاں میں رہتی
ہوں، فارس روڈ کے مغربی سرے پر جہاں چینی حجام کی دکان ہے اس کے قریب ایک اندھیری
گلی کے موڑ پر میری دکان ہے۔ لوگ تو اسے دکان نہیں کہتے مگر خیر آپ دانا ہیں آپ سے
کیا چھپاؤں گی۔ یہی کہوں گی وہاں پر میری دکان ہے اور وہاں پر میں اس طرح بیوپار
کرتی ہوں جس طرح بنیاد، سبزی والا، پھل والا، ہوٹل والا، موٹر والا، سینیما والا،
کپڑے والا یا کوئی اور دوکاندار بیوپار کرتا ہے اور ہر بیوپار میں گاہک کو خوش
کرنے کے علاوہ اپنے قائدہ کی بھی سوچتا ہے۔ میرا بیوپار بھی اسی طرح کا ہے، فرق
صرف اتنا ہے کہ میں بلیک مارکٹ نہیں کرتی اور مجھ میں اور دوسرے بیوپاریوں میں کوئی
فرق نہیں۔ یہ دوکان اچھی جگہ پر واقع نہیں ہے۔ یہاں رات تو کجا دن میں بھی لوگ
ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ اس اندھیری گلی میں لوگ اپنی جیبیں خالی کر کے جاتے ہیں۔ شراب
پی کر جاتے ہیں۔ جہاں بھر کی گالیاں بکتے ہیں۔ یہاں بات بات پر چھرا زنی ہوتی ہے
وہ ایک خوں دوسرے تیسرے روز ہوتے رہتے ہیں۔ غرضیکہ ہر وقت جان ضیق میں رہتی ہے اور
پھر میں کوئی اچھی طوائف نہیں ہوں کہ پون جا کے رہوں یا ورلی پر سمندر کے کنارے ایک
کوٹھی لے سکوں۔ میں ایک بہت ہی معمولی درجے کی طوائف ہوں اور اگر میں نے سارا
ہندوستان دیکھا ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ہر طرح کے لوگوں کی صحبت میں
بیٹھی ہوں لیکن اب دس سال سے اسی شہر بمبئی میں۔ اسی فارس روڈ پر۔ اسی دکان میں بیٹھی
ہوں اور اب تو مجھے اس دکان کی پگڑی بھی چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔ حالانکہ یہ جگہ
کوئی اتنی اچھی نہیں۔ فضا متعفن ہے کیچڑ چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ گندگی کے انبار
لگے ہوئے ہیں اور خارش زدہ کتے گھبرائے ہوئے گاہکوں کی طرف کاٹ کھانے کو لپکتے ہیں
پھر بھی مجھے اس جگہ کی پگڑی چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔ اس جگہ میری دکان ایک منزلہ
مکان میں ہے۔ اس کے دو کمرے ہیں۔ سامنے کا کمرہ میری بیٹھک ہو۔ یہاں میں گاتی ہوں،
ناچتی ہوں، گاہکوں کو رجھاتی ہوں، پیچھے کا کمرہ، باورچی خانے اور غسل خانے اور
سونے کے کمرے کا کام دیتا ہے۔ یہاں ایک طرف نل ہے۔ ایک طرف ہنڈیا ہے اور ایک طرف ایک
بڑا سا پلنگ ہے اور اس کے نیچے ایک اور چھوٹا سا پلنگ ہے اور اس کے نیچے میرے
کپڑوں کے صندوق ہیں، باہر والے کمرے میں بچلی کی روشنی ہے لیکن اندر والے کمرے میں
بالکل اندھیرا ہے۔ مالک مکان نے برسوں سے قلعی نہیں کرائی نہ وہ کرائے گا۔ اتنی
فرصت کسے ہے۔ میں تو رات بھر ناچتی ہوں، گاتی ہوں اور دن کو وہیں گاؤ تکیے پر سر ٹیک
کر سو جاتی ہوں، بیلا اور بتول کو پیچھے کا کمرہ دے رکھا ہے۔ اکثر گاہک جب ادھر
منہ دھونے کے لیے جاتے ہیں تو بیلا اور بتول پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگ
جاتی ہیں جو کچھ ان کی نگاہیں کہتی ہیں۔ میرا یہ خط بھی وہی کہتا ہے۔ اگر وہ میرے
پاس اس وقت نہ ہوتیں تو یہ گناہ گار بندی آپ کی خدمت میں یہ گستاخی نہ کرتی، جانتی
ہوں دنیا مجھ پر تھو تھو کرے گی ناتی ہوں شاید آپ تک میرا یہ خط بھی نہ پہنچے گا۔
پھر بھی مجبور ہوں یہ خط لکھ کے رہوں گی کہ بیلا اور بتول کی مرضی یہی ہے۔
شاید
آپ قیاس کر رہے ہوں کہ بیلا اور بتول میری لڑکیاں ہیں۔ نہیں یہ غلط ہے میری کوئی
لڑکی نہیں ہے۔ ان دونوں لڑکیوں کو میں نے بازار سے خریدا ہے۔ جن دنوں ہندو مسلم
فساد زوروں پر تھا، اور گرانٹ روڈ، اور فارس روڈ اور مدن پورہ پر انسانی کون پانی
کی طرح بہایا جا رہا تھا۔ ان دنوں میں نے بیلا کو ایک مسلمان دلال سے تین سو روپے
کے عوض کریدا تھا۔ یہ مسلمان دلال اس لڑکی کو دہلی سے لایا تھا جہاں بیلا کے ماں
باپ رہتے تھے۔ بیلا کے ماں باپ راولپنڈی میں راجہ بازار کے عقب میں پونچھ ہاؤس کے
سامنے کی گلی میں رہتے تھے، متوسط طبقے کا گھرانہ تھا، شرافت اور سادگی گھٹی میں
پڑی تھی۔ بیلا اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور جب راولپنڈی میں مسلمانوں نے
ہندوؤں کو تہ تیغ کرنا شروع کیا اس وقت چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ یہ بارہ جولائی
کا واقعہ ہے۔ بیلا اپنے اسکول سے پڑھ کر گھر آ رہی تھی کہ اس نے اپنے گھر کے سامنے
اور دوسرے ہندوؤں کے گھروں کے سامنے ایک جم غفیر دیکھا۔ یہ لوگ مسلح تھے اور گھروں
کو آگ لگا رہے تھے اور لوگوں کو اور ان کے بچوں کو اور ان کی عورتوں کو گھر سے
باہر نکال کر انہیں قتل کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ بھی بلند کرتے جاتے
تھے۔ بیلا نے اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس نے اپنی
آنکھوں سے اپنی ماں کو دم توڑتے ہوئے دیکھا۔ وحشی مسلمانوں نے اس کے پستان کاٹ کر
پھینک دیئے تھے۔ وہ پستان جن سے ایک ماں کوئی ماں، ہندو ماں یا مسلمان ماں، عیسائی
ماں یا یہودی ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور انسانوں کی زندگی میں کائنات کی
وسعت میں تخلیق کا ایک نیا باب کھولتی ہے وہ دودھ بھرے پستان اللہ اکبر کے نعروں
کے ساتھ کاٹ ڈالے گئے۔ کسی نے تخلیق کے ساتھ اتنا ظلم کیا تھا۔ کسی ظالم اندھیرے
نے ان کی روحوں میں یہ سیاہی بھر دی تھی۔ میں نے قرآن پڑھا ہے اور میں جانتی ہوں
کہ راولپنڈی میں بیلا کے ماں باپ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسلام نہیں تھا وہ انسانیت
نہ تھی، وہ دشمنی بھی نہ تھی، وہ انتقال بھی نہ تھا، وہ ایک ایسی سعادت، بے رحمی،
بزدلی اور شیطنت تھی جو تاریخی کے سینے سے پھوٹتی ہے اور نور کی آخری کرن کو بھی
داغدار کر جاتی ہے۔ بیلا اب میرے پاس ہے۔ مجھ سے پہلے وہ داڑھی والے مسلمان دلال
کے پاس تھی بیلا کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں تھی جب وہ چوتھی جماعت میں پڑھتی
تھی۔ اپنے گھر میں ہوتی تو آج پانچویں جماعت میں داخل ہو رہی ہوتی۔ پھر بڑی ہوتی تو
اس کے ماں باپ اس کا بیاہ کسی شریف گھرانے کے غریب سے لڑکے سے کر دیتے، وہ اپنا
چھوتا سا گھر بساتی، اپنے خاوند سے۔ اپنے ننھے ننھے بچوں سے، اپنی گھریلو زندگی کی
چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے۔ لیکن اس نازک کلی کو بے وقت خزاں آ گئی، اب بیلا بارہ برس
کی نہیں معلوم ہوتی۔ اس کی عمر تھوڑی ہے لیکن اس کی زندگی بہت بوڑھی ہے۔ اس کی
آنکھوں میں جو ڈر ہے۔ انسانیت کی جو تلخی ہے یا اس کا جو لہو ہے موت کی جو پیاس ہے
قائد اعظم صاحب شاید اگر آپ اسے دیکھ سکیں تو اس کا اندازہ کر سکیں۔ ان بے آسرا
آنکھوں کی گہرائیوں میں اتر سکیں۔ آپ تو شریف آدمی ہیں۔ آپ نے شریف گھرانے کی
معصوم لڑکیوں کو دیکھا ہو گا ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکیوں کو، شاید آپ سمجھ جاتے
کہ معصومیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ ساری انسانیت کی امانت ہے۔ ساری دنیا کی میراث
ہے جو اسے مٹاتا ہے اسے دنیا کے کسی مذہب کا کوئی خدا معاف نہیں کر سکتا۔ بتول اور
بیلا دونوں سگی بہنوں کی طرح میرے ہاں رہتی ہیں۔ بتول اور بیلا سگی بہنیں نہیں ہیں۔
بتول مسلمان لڑکی ہے۔ بیلا نے ہندو گھر میں جنم لیا۔ آج دونوں فارس روڈ پر ایک رنڈی
کے گھر میں بیٹھی ہیں۔
اگر
بیلا راولپنڈی سے آئی ہے تو بتول جالندھر کے ایک گاؤں کھیم کرن کے ایک پٹھان کی بیٹی
ہے۔ بتول کے باپ کی سات بیٹیاں تھیں، تین شادی شدہ اور چار کنواریاں، بتول کا باپ
کھیم کرن میں ایک معمولی کاشتکار تھا۔ غریب پٹھان لیکن غیور پٹھان جو دیوں سے کھیم
کرن میں آ کے بس گیا تھا۔ جاٹوں کے اس گاؤں میں یہی تین چار گھر پٹھانوں کے تھے، یہ
لوگ جس حلمو آشتی سے رہتے تھے شاید اس کا اندازہ پنڈت جی آپ کو اس امر سے ہو گا کہ
مسلمان ہونے پر بھی ان لوگوں کو اپنے گاؤں میں مسجد بنانے کی اجازت نہ تھی۔ یہ لوگ
گھر میں چپ چاپ اپنی نماز ادا کرتے، صدیوں سے جب سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے عنان
حکومت سنبھالی تھی کسی مومن نے اس گاؤں میں اذان نہ دی تھی۔ ان کا دل عرفان سے
روشن تھا لیکن دنیاوی مجبوریاں اس قدر شدید تھیں اور پھر رواداری کا خیال اس قدر
غالب تھا کہ لب وا کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ بتول اپنے باپ کی چہیتی لڑکی تھی۔
ساتوں میں سب سے چھوٹی، سب سے پیاری، سب سے حسین، بتول اس قدر حسین ہے کہ ہاتھ
لگانے سے میلی ہوتی ہے، پنڈت جی آپ تو خود کشمیری النسل ہیں اور فن کار ہو کر یہ
بھی جانتے ہیں کہ خوبصورتی کسے کہتے ہیں۔ یہ خوبصورتی آج میری گندگی کے ڈھیر میں
گڈمڈ ہو کر اس طرح پڑی ہے کہ اس کا پرکھ کرنے والا کوئی شریف آدمی اب مشکل سے ملے
گا، اس گندگی میں گلے سڑے مارداڑی، گھن، مونچھوں والے ٹھیکیدار، ناپاک نگاہوں والے
چار بازاری ہی نظر آتے ہیں۔ بتول بالکل ان پڑھ ہے۔ اُس نے صرف جناح صاحب کا نام
سنا تھا، پاکستان کو ایک اچھا تماشہ سمجھ کر اس کے نعرے لگائے تھے۔ جیسے تین چاور
برس کے ننھے بچے گھر میں انقلاب زندہ باد، کرتے پھرتے ہیں، گیارہ برس ہی کی تو وہ
ہے۔ ان پڑھ بتول، وہ چند دن ہی ہوئے میرے پاس آئی ہے۔ ایک ہندو دلال اسے میرے پاس
لایا تھا۔ میں نے اسے پانچ سو روپے مین کرید لیا۔ اس سے پہلے وہ کہاں تھی۔ یہ میں
نہیں کہہ سکتی۔ ہاں لیڈی ڈاکٹر نے مجھ سے بہت کچھ کہا ہے کہ اگر آپ اسے سن لیں تو
شاید پاگل ہو جائیں۔ بتول بھی اب نیم پاگل ہے۔ اس کے باپ کو جاٹوں نے اس بیدردی سے
مارا ہے کہ ہندو تہذیب کے پچھلے چھ ہزار برس کے چھلکے اتر گئے ہیں اور انسانی بربریت
اپنے وحشی ننگے روپ میں سب کے سامنے آ گئی ہے۔ پہلے تو جاٹوں نے اس کی آنکھیں نکال
لیں۔ پھر اس کے منہ میں پیشاب کیا، پھر اس کے حلق کو چیر کر اس کی یہ آنتیں تک
نکال ڈالیں۔ پھر اس کی شادی شدہ بیٹیوں سے زبردستی منہ کالا کیا۔ اسی وقت ان کے
باپ کی لاش کے سامنے، ریحانہ، گل درخشاں، مرجانہ، سوہن، بیگم، ایک ایک کر کے وحشی
انسان نے اپنے مندر کی مورتیوں کو ناپاک کیا۔ جس نے انہیں زندگی عطا کی، جس نے انہیں
لوریاں سنائی تھیں، جس نے ان کے سامنے شرم اور عجز سے اور پاکیزگی سے سر جھکا دیا
تھا۔ ان تمام بہنوں، بہوؤں اور ماؤں کے ساتھ زنا کیا۔ ہندو دھرم نے اپنی عزت کھودی
تھی اپنی رواداری تباہ کر دی تھی، اپنی عظمت مٹا ڈالی تھی، آج رگ دید کا ہر منتر
خاموش تھا۔ آج گرنتھ صاحب کا ہر دوہا شرمندہ تھا۔ آج گیتا کا ہرا شلوک زخمی تھا۔
کون ہے جو میرے سامنے اجنتا کی مصوری کا نام لے سکتا ہے۔ اشوک کے کتبے سنا سکتا
ہے، ایلورا کے صنم زادوں کے گن گا سکتا ہے۔ بتول کے بے بس بھنچے ہوئے ہونٹوں، اس کی
بانہوں پر وحشی درندوں کے دانتوں کے نشان اور اس کی بھری ہوئی ٹانگوں کی ناہمواری
میں تمہاری اجنتا کی موت ہے۔ تمہارے ایلورا کا جنازہ ہے۔ تمہاری تہذیب کا کفن ہے۔
آؤ آؤ میں تمہیں اس خوبصورتی کو دکھاؤں جو کبھی بتول تھی۔ اس متعفن لاش کو دکھاؤں
جو آج بتول ہے۔
جذبے
کی رو میں بہہ کر میں بہت کچھ کہہ گئی۔ شاید یہ سب مجھے نہ کہنا چاہئے تھا۔ شاید
اس میں آپ کی سبکی ہے۔ شاید اس سے زیادہ ناگوار باتیں آپ سے اب تک کسی نے نہ کی
ہوں نہ سنائی ہوں گی۔ شاید آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ شاید تھوڑا بھی نہیں کر
سکتے۔ پھر بھی ہمارے ملک میں آزادی آ گئی ہے۔ ہندوستان میں اور پاکستان میں اور شاید
ایک طوائف کو بھی اپنے رہنماؤں سے پوچھنے کا یہ حق ضرور ہے کہ اب بیلا اور بتول کا
کیا ہو گا۔ بیلا اور بتول دو لڑکیاں ہیں دو قومیں ہیں دو تہذیبیں ہیں۔ دو مندر اور
مسجد ہیں۔ بیلا اور بتول آج کل فارس روڈ پر ایک رنڈی کے ہاں رہتی ہیں جو چینی حجام
کی بغل میں اپنی دکان کا دھندا چلاتی ہے۔ بیلا اور بتول کو یہ دھندا پسند نہیں۔ میں
نے انہیں خریدا ہے۔ میں چاہتوں تو ان سے یہ کام لے سکتی ہوں۔ لیکن میں سوچتی ہوں میں
یہ کام نہیں کروں گی جو راولپنڈی اور جالندھر نے ان سے کیا ہے۔ میں نے انہیں اب تک
فارس روڈ کی دنیا سے الگ تھلگ رکھا ہے۔ پھر بھی جب میرے گاہک پچھلے کمرے میں جا کر
اپنا منہ ہاتھ دھونے لگتے ہیں، اس وقت بیلا اور بتول کی نگاہیں مجھ سے کہنے لگتی ہیں
مجھے ان نگاہوں کی تاب نہیں۔ میں ٹھیک طرح سے ان کا سندیسہ بھی آپ تک نہیں پہنچا
سکتی ہوں۔ آپ کیوں نہ خود ان نگاہوں کا پیغام پڑھ لیں۔ پنڈت جی میں چاہتی ہوں کہ
آپ بتول کو اپنی بیٹی بنا لیں۔ جناح صاحب میں چاہتی ہوں کہ آپ بیلا کو اپنی دختر نیک
اختر سمجھیں ذرا ایک دفعہ انہیں اس فارس روڈ کے چنگل سے چھڑا کے اپنے گھر میں رکھے
اور ان لاکھوں روحوں کا نوحہ سنئے۔ یہ نوحہ جو نواکھالی سے راولپنڈی تلک اور بھرت
پور سے بمبئی تک گونج رہا ہے۔ کیا صرف گورنمنٹ ہاؤس میں اس کی آواز سنائی نہیں دیتی،
یہ آواز سنیں گے آپ؟
آپ
کی مخلص
فارس
روڈ کی ایک طوائف
٭٭٭
No comments:
Post a Comment