Saturday 3 June 2017

" Mamta " A Famous Urdu Short Story By Krishna Chander

کرشن چندر اردو کے نامور افسانہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (موجودہ پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ کرشن چندر کی تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے قانون کی پڑھائی بھی کی تھی۔
کرشن چندر کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی تھے۔ خامہ فرسائی کے زریں دور کی بات کریں توپتہ چلتا ہے کہ کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کا فی مقبول ہوئے تھے۔
کرشن چندر نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے لکھے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو پردہ سیمیں پر پیش کیا۔
8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال ہو گیا تھا۔(بشکریہ ویکیپیڈیا)


اور اب میں یہاں آپ کے سامنے کرشن چندر کا نہایت ہی مشہور افسانہ  " مَمتا " پیش کرنے جا رہا ہوں اُمید ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔ 
    مَمتا
کرشن چندر
 یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا، بادلوں کا ایک ہلکا سا غلاف چاند کو چھپائے ہوئے تھے۔ یکا یک میری آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ساتھ والی چارپائی پر اماں سسکیاں لے رہی ہیں
’’کیوں امی؟‘‘میں ‌نے گھبرا کر آنکھیں ملتے ملتے پوچھا۔
’’کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امی!‘‘اماں نے سسکیاں اور ہچکیوں کے درمیاں میرے سوال کو غصہ سے دہراتے ہوئے کہا۔ ’’شرم نہیں آتی، باپ کو بھی اور بیٹے کو بھی اتنے بڑے ہو گئے ہو، کچھ خدا کا خوف نہیں۔ ‘‘
’’آخر ہوا کیا؟‘‘میں نے جلدی سے بات کاٹ کر پوچھا۔ ’’یہ آدھی رات کے وقت رونا کیسا؟‘‘
گریوں کے دن تھے ہم سب برآمدے میں سو رہے تھے۔ مگر ابا اندر سامنے ایک کمرے میں سو رہے تھے۔ ان کی طبیعت ناساز تھی اور انھیں اکثر گرمیوں میں بھی سردی لگ جانے کا اندیشہ لاحق رہتا تھا۔ اس لیے عموماً وہ اندر ہی سویا کرتے ہیں۔ آخر ان کی آنکھ بھی کھل گئی۔ وہیں بستر پر سے کروٹ بدل کر بولے۔ ’’کیا بات ہے وحید؟ تمہاری اماں کیوں رو رہی ہے؟‘‘
’’میں کیا بتاؤں ابا۔ بس رو رہی ہیں۔ ‘‘
’’ہاں اور تمھیں کس بات کی فکر ہے۔ ‘‘اماں کی ہچکیاں اور تیز ہو گئیں۔ ’’پتہ نہیں میرا لال اس وقت کس حالت میں ہے۔ میرا چھوٹا محمود، اور تم یہاں پڑے سو رہے ہو۔ وہاں اس کا کون ہے، نہ ماں، نہ بھائی، نہ بہن اور تم خراٹے لے رہے ہو۔ آرام سے جیسے تمھیں کسی بات کی فکر ہی نہیں (سسکتے ہوئے(میں نے ابھی ابھی اپنے چھوٹے محمود کو خواب میں دیکھا ہے۔ وہ ایک میلے کچیلے بستر میں پڑا بخار سے تپ رہا تھا۔ اس کا پنڈا تنور کی طرح گرم تھا۔ وہ کراہتے ہوئے اماں، اماں کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘یہ کہہ کر اماں زور زور سے رونے لگیں۔
اماں کا ’’چھوٹا محمود‘‘ اور میرا بڑا بھائی لاہور بی۔ اے میں تعلیم پاتا تھا، تھرڈ ایر میں، میں ایف اے کا امتحان دے کر لاہور سے یہاں مئی کے مہینے ہی میں ‌آ گیا تھا، مگر محمود کو ابھی ہالور کی تپتی ہوئی فضاؤں میں پورا ایک مہینہ اور گزارنا تھا۔ لیکن اب جون کا مہینہ بھی گزر گیا تھا اور محمود ابھی تک لاہور سے واپس نہ آیا تھا۔ اماں بہت پریشان تھیں اور سچ پوچھیے تو ہم سب بہت پریشان تھے۔ ہم نے اسے پرسوں ایک تار بھی دے دیا تھا اور مدتوں کے بعد اچانک محمود کا ایک خط بھی آیا تھا۔ چند منحنی سطور تھیں۔ لکھا تھا۔ ’’میں بیمار ہوں، ملیریے کا بخار ہے۔ لیکن اب ٹوٹ رہا ہے۔ چند دنوں سے یہاں بہت بارش ہو رہی ہے۔ اگر لاہور کا یہ حال ہے تو اسلام آباد میں کیا ہو گا۔ کیا کشمیر آنے کا راستہ کھل گیا۔ لدی لکھیے کہ کس راستے سے آؤں، کیا جموں بانہال روڈ سے آؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ کوہالہ اوڑی سڑک سے، کون سا راستہ بہتر رہے گا؟‘‘ہم نے سوچ بچار کے بعد ایک تار اور دے دیا تھا۔ گو بارش بہت ہو رہی تھی اور دونوں سڑکیں شکستہ حالت میں تھیں۔ پھر بھی کوہالہ اوڑی روڈ، بانہال روڈ سے بہتر حالت میں تھی۔ اس لیے یہی مناسب سمجھا کہ محمود کو ہالہ روڈ ہی سے آئے۔ اب آدھی رات کے وقت یہ افتاد آ پڑی۔
ابا کی نیند پریشان ہو گئی تھی چیں بجیں ہوتے ہوئے بولے۔ ’’تو اس کا کیا کیا جائے؟ اور تمھیں تو یونہی دل میں وسوسے اٹھا کرتے ہیں۔ بھلا اس کا علاج کیا؟ آخر محمود کوئی بچہ تو نہیں؟ تمھیں فکر کس بات کی ہے۔ ہزاروں ماؤں کے لال لاہور میں پڑھتے ہیں اور ہوسٹلوں میں رہتے ہیں۔ آتا ہی ہو گا، اگر آج صبح وہ لاہور سے چلا تو شام کو وہ راولپنڈی پہنچ گیا ہو گا کل کوہالہ اور۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اماں جلدی سے بولیں۔ ’’اور۔ ۔ ۔ ۔ اور؟ کیا غضب کرتے ہو اور اگر خدا نہ کرے۔ اس کا بخار ابھی نہ ٹوٹا ہو تو پھر؟ میں پوچھتی ہوں تو پھر؟‘‘یہ کہ کر اماں رک گئیں اور دوپٹے سے آنسو پونچھ کر کہنے لگیں۔
’’مجھے موٹر منگوا دو۔ میں ابھی لاہور جاؤں گی۔ ‘‘
’’اب تم سے کون بحث کرے ہمیں تو نیند آئی ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر ابا کروٹ بدل کر سو رہے۔ میں نے بھی یہی‌مناسب جان کر آنکھیں بند کر لیں۔ مگر کانوں میں ماں کی مدھم سسکیوں کی آواز جسے وہ دبانے کی بہت کوشش کر رہی تھیں برابر آ رہی تھی۔ کیا دل ہے ماں کا اور کتنی عجیب ہستی ہے اس کی؟ میں آنکھیں بند کیے سوچنے لگا۔ ماں کا دل، ماں کی محبت، مامتا، کس قدر عجیب جذبہ ہے، عالمِ جذبات میں اس کی نظیر ملنی محال ہے۔ نہیں یہ تو اپنی نظیر آپ ہے۔ ایک سپنے کے دھندے لکے میں اپنے بیمار بیٹے کو دیکھتی ہے اور چونک پڑتی ہے۔ لرز جاتی ہے۔ مامتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا اس جذبے کا اساس محض جسمانی ہے، محض اس لیے کہ بیٹا ماں کے گوشت و پوست کا ایک ٹکڑا ہے؟ اور کیا ہم سچ مچ فلابیر کے تخیل کے مطابق اس کائنات میں اکیلے ہیں، تنہا، بے یار و مددگار، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے بھی ناآشنا، مگر میں بھی تو محمود کا بھائی ہوں، میری رگوں میں وہی خون موجزن ہے، ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کے ان بیس سالوں میں صرف دو دفعہ محمود سے جدا ہوا ہوں اور وہ بھی نہایت قلیل عرصوں کے لیے۔ پھر میں کیوں اس قدر اس کے لیے بیتاب و بیقرار نہیں۔ مامتا۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہم سچ مچ پتھروں کے تودوں کی طرح ہیں مصر کے میناروں کی طرح خوبصورت لیکن بے جان اشوک کے کتبوں کی طرح سبق آموز لیکن بے حس، بے روح؟مامتا!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدھ نے کہا تھا کہ یہ دنیا دھوکا ہے، سراب ہے، مایا ہے، ہو گی۔ لیکن یقین نہیں پڑتا آخر یہ حسین جذبہ کہاں سے آیا؟ اور کائنات کے ایک گوشے میں سسکتی ہوئی اماں کیا یہ بھی ایک دھوکا ہے؟ سچ جانیے یقین نہیں پڑتا ہے۔
چھوٹا محمود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا ننھا محمود۔ ۔ ۔ ۔ میرا لال
امی ہلکی ہچکیوں میں بھائی کا نام لے رہی تھیں۔ کتنی معمولی سی بات تھی۔ بھائی جان شاہد ابھی لاہو رہی میں ہوں گے۔ ضیافتیں اڑاتے ہوں گے، سینما دیکھتے ہوں گے۔ یا اگر لاہور سے چلے آئے ہوں تو راولپنڈی میں اس وقت خوابِ خرگوش میں پڑے خراٹے لے رہے ہوں گے۔ ملیریا کیا عجب ملیریا کا بخار مطلق ہی نہ ہو۔ میں بھائی جان کے بہانوں کو خوب جانتا ہوں، اماں بھی جانتی ہیں مگر پھر بھی رو رہی ہیں۔ آخر کیوں؟ مامتا! شاہد یہ کوئی روحانی قرابت ہے، شاید اس دنیا کے وسیع صحرا میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ شاید ہم محض پتھروں کے تودوں کی طرح نہیں ہیں۔ شاید اس انسانی مٹی میں کسی ازلی آگ کے شعلوں کی تڑپ ہے معاِِ مجھے موپاساں کا افسانہ ’’تن تنہا‘‘ یاد آ گیا۔ جس میں اس نے اس شدید احساس تنہائی کا رونا رویا ہے۔ آہ بے چارہ موپاساں، وہ ایک ماہر نفسیات تھا اور ایک ماہر نفسیات کی طرح وہ کئی بار نفسیاتی واردات کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر رہا اس کے افکار نے اسے کثرت غلط راستہ پر ڈال دیا۔ ’’تن تنہا‘‘ ایک ایسی ہی مثال ہے۔ وہ لکھتا ہے:۔
’’عورت ایک سراب ہے اور حسن ایک فروعی امر۔ ہم ایک دوسرے کے متعلق کچھ نہیں جانتے، میاں بیوی سالہا سال ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو دوست ملتے ہیں اور ہر دوسری ملاقات میں ایک دوسرے  سے دور چلے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ نسوانی محبت مستقل دھوکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب میں عورت کو دیکھتا ہوں تو مجھے چاروں طرف موت ہی موت نظر آتی ہے۔ ‘‘
میں نے آنکھیں کھول کر اماں کی طرف دیکھا، امی روتے روتے سو گئی تھیں، گال آنسوؤں سے گیلے تھے اور بند آنکھوں کی پکوں پر آنسو چمک رہے تھے۔ کیا امی موت ہے؟ اور کیا مامتا بھی کوئی ایسا ہی ہلاکت آفریں جذبہ ہے؟ شاید موپاساں غلطی پر تھا، شاید اسے یہ لکھتے وقت اپنی شفیق ماں کی یاد نہ آئی تھی۔ وہ اس کی جان بخش لوریاں، وہ نرم نرم تھپکیاں جبکہ وہ بچوں کی طرح صرف ’’اوں اوں ‘‘کہہ کر بلبلا اٹھتا تھا اور اس کی چھاتی سے لپٹ جاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نسوانی محبت مستقل دھوکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید اسے اپنی اماں کے وہ طویل بوسے بھول گئے کہ جب بڑا ہونے پر بھی اس کا نفسیاتی سر اپنے بازوؤں میں لے لیتی تھی اور پیار کرتی تھی۔ جب وہ مامتا سے بیقرار ہو جاتی تھی اور ان کی غیر حاضری میں بھی اس کی راہ دیکھا کرتی تھی۔ اس کی ہر غلطی کو بچوں کی بھول سے تعبیر کیا کرتی تھی اور گناہ کو نیکی میں مبدل کر دیتی تھی۔ اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں وہ اس شدید احساس تنہائی جس کی موپاساں کو شکایت ہے، جو دنیاوی کلفتوں اور الفتوں میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا، نجانے وہ ماں کی گود میں آ کر کیسے ناپید ہو جاتا ہے؟ ماں کے جذبہ محبت میں ایک ایسی دیوانگی و وارفتگی ہے جو اس کی انانیت کو فنا کر دیتی ہے اور اس کی ذات کو بچوں میں منتقل کر دیت ہے۔ یقیناً ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔ بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔
غٹر غوں، غٹر غوں، ککڑوں کوں، کبوتر، مرغ، چڑیاں، دوشیزہ سحر کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ان کی خوش الحانی نے مجھے بیدار کر دیا، میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ ٹانگیں چار پائی سے نیچے لٹکا دیں اور آنکھیں ملنے گا۔ اتنے میں آنگن سے اماں کی آواز آئی۔
’’بیٹا وحید اٹھو، محمود آ گئے۔ ‘‘
آنکھیں کھول کر دیکھا تو سچ مچ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماں آنگن میں اگے ہوئے پنجتار کے بوٹے کے نیچے ایک مونڈے پر بیٹھی تھیں اور محمود ان کے پیروں پر جھکا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اٹھا آنگن میں ہم دونوں بھائی بغل گیر ہوئے۔
’’اتنے دن کہاں رہے‘‘ میں نے محمود سے پوچھا۔
محمود نے شوخ نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور ایک آنکھ میچ لی۔ پھر گردن موڑ کر پنچ تارے کے سرخ سرخ پھولوں کے گچھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔
’’کوئی سات روز جھڑی رہی، متواتر بارش ہونے سے سڑک جا بجا سے بہ گئی تھی اور سپرنٹنڈنٹ ٹریفک نے راستہ بند کر دیا تھا۔ ‘‘اس نے آہستہ سے جواب دیا اور یہ کہہ کر ایک ہاتھ میرے ہاتھ کو پکڑ کر زور سے ہلانے لگا۔
اماں کدو چھیل رہی تھیں اور ہم دونوں کو دیکھتی جاتی تھیں۔ ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔ آنسوؤں کے ان دو سمندروں میں خوشیوں کی جل پریاں ناچ رہی تھیں۔

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)