آزادیوں
کے نام پہ رسوائیاں ملیں
مشکل
سے تیرے درد کی پنہائیاں ملیں
ساقی
نے جھوٹ بولا ہے فصل بہار کا
گلشن
میں صرف آپ کی انگڑائیاں ملیں
تجھ
کو ملے ہیں قریہ مہتاب میں گڑھے
ہم
کو تو پتھروں میں بھی رعنائیاں ملیں
ہم
نے انہیں کو صورت جاناں بنا لیا
دیوارِ
آرزو پہ جو پر چھائیاں ملیں
ان
پہ نثار محفل ہستی کی رونقیں
اے
دوست مکیدے میں جو تنہائیاں ملیں
ہر
تجربے میں ساغر مے کا جواز ہے
ہر فلسفے میں زلف کی گہرائیاں
ملیں
No comments:
Post a Comment