احتیاطاً
فقر کا ہر مرحلہ کٹتا رہا
اتفاقاً آپ کی خیرات کا دھڑکا رہا
آج
پهر شبنم کے قطروں نےبجایا جلترنگ
آج
پھر دامن مری آواز کا بهیگا رہا
کوئی
آیا ہے نہ آئے گا دل ناداں کبھی
میرے
دروازے کا پردہ تو سدا ہلتا رہا
رات
کی رانی کا جھونکا تها کسی کی یاد بهی
دیر
تک آنگن میرے احساس کا مہکا رہا
تیز
رو چلتے ہیں ساغر قافلے اس نام سے
رہنماؤں سے ہمیشہ راہزن اچها
رہا.
No comments:
Post a Comment