سونے
کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست
مُجھ
کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
میں
رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ہر
شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
اتنا
بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست
دو
چار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
دو
چار دن کے پیار کا قائل نہیں ہُوں دوست
جس
کی جھلک سے ماند ہو اشکوں کی آبُرو
اس
موتیوں کے ہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
لایا
ہُوں بے حساب گناہوں کی ایک فرد
محبوب
ہُوں شُمار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ساغر
بقدرِ ظرف لُٹاتا ہُوں نقدِ ہوش
ساقی
سے میں ادُھار کا قائل نہیں ہوں دوست
(ساغر
صدیقی)
No comments:
Post a Comment