میں تلخی حیات سے گھبرا
کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا
کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے
سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے
گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوۓ تھے
جام پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے
گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ
نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے
گھبرا کے پی گیا
دنیاۓ
حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیاۓ
حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں
اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے
گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ
پی لیجیے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا
کے پی گی
No comments:
Post a Comment