چاک
داماں کا تماشہ سر بازار ہوا
تیری
عصمت کی تجارت پس دیوار سہی
میری
تقدیر کا سودا سر بازار ہوا
پھر
کوئی اہل جنوں دار پہ چڑھ جائے گا
پھر
تیرے حسن کا چرچا سر بازار ہوا
ہم
نےرکھاہےاسے دل کےمکاں میں برسوں
جو
کبھی ہم سے شناسا سر بازار ہوا
مرحلے
دید کے دشوار تھے لیکن ساغر
منزل
طور کا جلوہ سر بازار ہوا
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment