اچھال جام کہ تسخیرِ
کائنات کریں
بکھیر زلف کہ تنظیمِ
حادثات کریں
شکست بازی دوراں ہے کہ ایک
جرعہ ہے
چلو کہ بازی دوراں کو آج
مات کریں
بجها چراغ نظر نظر لٹ چکی
ہے بزمِ حیات
چلو کہ صبح کے تارے سے
کوئی بات کریں
روش روش پہ سجائیں سخن
کے گلدستے
بہارِ فکر سے تزئین
کائنات کریں
وہ جن کو خوف ہو گرداب
وقت سے ساغر
وہ اپنی ناو سپرد غمِ حیات
کریں
No comments:
Post a Comment