اثر کرے نہ کرے ،سن تو لے مری
فریاد.
نہیں ہے داد کا طالب
یہ بندۂ آزاد.
یہ مشتِ خاک ،یہ صرصر ،یہ وسعتِ
افلاک .
کرم ہے ، یا ستم تیری لذّت
ایجاد!
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہار،یہی ہے باد
ِمراد؟
قصور وار ، غریب الدّیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں
دیتا ہے
وہ دشت سادہ،وہ تیرا جہانِ بے بنیاد
خطر پسند طبیعت
کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
بال جبریل
No comments:
Post a Comment