کیوں گِرہ
گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کِسی پھول کی اَڑی ہو گی
التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے دَر پر کہیں پڑی ہو گی
موت کہتے
ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی
(ساغر
صدیقی)
میرے چمن
میں بہاروں کے پُھول مہکیں گے
مجھے یقیں
ہے شراروں کے پُھول مہکیں گے
جھلملاتے
ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
ہائے آدابِ
محبّت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑدیا
(ساغر صدیقی)
No comments:
Post a Comment