ر۔ کی کہاوتیں
( ۱ ) رات گئی بات گئی :
یعنی
اب پرانی باتوں کا کیا ذکر۔ جو ہونا تھا سو ہو چکا۔ ایک اور کہاوت بھی اسی
معنی میں بولی جاتی ہے کہ
’’ گڑے مُردے اُکھاڑنے سے کیا حاصل؟‘‘
(۲ ) راجا ہوئے تو کیا، وہی جاٹ کے
جاٹ :
یعنی دولت تو بہت کما لی لیکن پرانی خصلت اور
عادتیں ویسی ہی اوچھی کی اوچھی
رہیں۔ کہاوت ایسے نودولتیوں کے لئے بولی
جاتی ہے جو مالدار بن کر بھی شرافت اور عالی ظرفی سے بیگانہ ہی رہتے ہیں۔
( ۳) رائی کا پربت (یا پہاڑ) بن
گیا :
اس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔
دیکھئے’’ رسّی کا سانپ بن گیا‘‘۔
( ۴ ) راجا کس کا یار، جوگی کس کا
میت :
راجا اور جوگی دونوں اپنی مرضی کے
مالک ہوتے ہیں،راجہ اپنی خود مختاری اور قوت کے بل بوتے پر اور جوگی دُنیا سے بے
نیازی کے باعث۔ مطلب یہ ہے کہ صاحب اختیار کسی کا دوست نہیں ہوتا۔
( ۵) رانی روٹھے گی، اپنا سہاگ لے
گی :
یعنی رانی اگر راجا سے روٹھے گی
تو اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ اس کا تو سہاگ ہی راجا سے قائم ہے۔ جب کوئی
کمزور آدمی اونچی اونچی باتیں کرے اور اپنا زور دِکھانے کی کوشش میں
دھمکی دے تو یہ کہاوت بولتے ہیں کہ ان باتوں سے تو خود تمھارا ہی
نقصان ہے۔
(۶) رام نام جپنا، پرایا مال
اپنا :
یعنی دھوکہ دے کر مذہب کے نام پر
لوگوں کا مال ہتھیا لینا۔ کوئی اپنے کو بڑا پارسا دکھائے لیکن اصل مقصد
لوگوں کو لوٹنا ہو تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment