ز۔ کی
کہاوتیں
( ۱ ) زبان آج کھلی ہے کل
بند :
زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ کیا معلوم کب موت آ
جائے۔
(۲ ) زبان خلق کو نقارۂ
خدا سمجھو :
جس بات پر اکثریت متفق ہو وہ بہت وزن رکھتی ہے جیسے وہ اللہ کی طرف سے کہی
جا رہی ہے۔ گویا ہر شخص کا کسی بات پر متفق ہو جانااُس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
( ۳) زبان پر کانٹے پڑ
گئے :
سخت پیاس کا عالم ہے اور
زبان خشک ہو کر چبھ رہی ہے۔
( ۴) زبانی جمع خرچ ہے
:
یعنی باتیں ہی باتیں
ہیں۔ کام کرنے کا وقت آئے گا تو شاید نظر بھی نہ آئیں۔
( ۵) زبان سے نکلی آسمان پر
چڑھی :
ایک بار زبان سے نکلی تو پھر بات پر اختیار نہیں رہ جاتا ہے، چنانچہ
بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے۔ اس معنی میں متعدد کہاوتیں اور بھی ہیں
جیسے’’ پہلے بات کو تولو، پھر منھ سے بولو، حلق سے نکلی خلق میں
پہنچی، منھ سے نکلی ہوئی پرائی بات‘‘ وغیرہ۔
( ۶ ) زبر دست کا ٹھینگا سر
پر :
ٹھینگا یعنی کھڑا انگوٹھا جو اہانت اور تحقیر کے لئے دشمن کو دکھایا جاتا
ہے۔ ظالم اور زبر دست آدمی اپنی رعونت اور قوت کے اظہار کے لئے ٹھینگا سر کے اوپر
کھڑا کر کے دکھاتا ہے۔کہاوت کا مطلب ہے کہ ظالم کی بات ماننی ہی پڑتی ہے۔
( ۷ ) زمین کی کہی،آسمان کی
سُنی :
اگر کہا کچھ جائے اور سننے والا دانستہ اس کا کچھ اور ہی
مطلب لے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ اسی معنی میں ’’کہیں کھیت کی،سنیں
کھلیان کی‘‘ بھی مستعمل ہے۔
No comments:
Post a Comment