چ ۔ کی کہاوتیں
(۳۷) چولی دامن کا ساتھ :
پہلے زمانے میں خواتین اپنے دوپٹہ کا پلو
قمیص کے گلے میں اُڑس لیتی تھیں تاکہ وہ کسی اور چیز میں اُلجھ
کر اُن کی بے پردگی کا باعث نہ ہو۔ یہ گویا چولی دامن کا ساتھ ہوا جو
انتہائی قربت کی نشانی ہے۔ یہ کہاوت دو چیزوں کی انتہائی قربت کو ظاہر کرتی
ہے۔ مثلاً غزل اور محبت کے جذبات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
( ۳۸ ) چور کا بھائی اٹھائی
گیرہ :
اٹھائی گیرہ یعنی جو نظر بچا کر مال
لے اُڑے۔ چور اور اٹھائی گیرہ ایک ہی برادری کے فرد ہیں۔ دو بد قماش
اور بد اطوار آدمی یکجا ہو جائیں تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۳۹) چور چوری سے جاتا ہے، ہیرا پھیری سے
نہیں جاتا :
یعنی پرانی عادتیں اور خاص کر بُری عادتیں
آسانی سے نہیں چھٹتی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے چور اپنی چوری کی
عادت بھلے ہی چھوڑ دے لیکن ادھر اُدھر دیکھنا بھالنا اور موقعے تاڑنا اس سے نہیں
چھوٹتا۔ اس کہاوت کے پس منظر کے طور پر ایک حکایت بیان کی جاتی ہے۔ ایک چو
رنے آخری عمر میں چوری سے توبہ کر لی اور اللہ کی یاد میں باقی زندگی
بسر کرنے کی ٹھانی۔ وہ فقیروں کے ایک گروہ میں شامل ہو گیا اور عبادات
میں لگ گیا لیکن چوری کی پرانی عادت رہ رہ کر اس کو پریشان کرتی تھی۔ چنانچہ
جب سب فقیرسو جاتے تو راتوں کو وہ اٹھ کر چپکے چپکے ان کی جھولیاں
ٹٹولا کرتا تھا۔ ایک دن ایک فقیر کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے جو اپنے ساتھی کو
جھولیاں ٹٹولتے دیکھا تو یہ کہاوت کہی۔
(۴۰) چور کی داڑھی میں
تنکا :
روایت ہے کہ ایک قاضی صاحب کے سامنے چوری کا
مقدمہ پیش کیا گیا۔ حاضرین میں سے کسی نے چوری کی تھی لیکن کوئی اقبال جرم
کے لئے تیار نہیں تھا۔ قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ ’’میں ایک ایسی دُعا
جانتا ہوں جس کے اثر سے چور کی داڑھی میں خود بخود ایک تنکا پیدا ہو
جاتا ہے اور اس طرح اس کو پہچانا جا سکتا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے بظاہر
نہایت خضوع و خشوع سے کوئی دُعا پڑھنی شروع کی۔ اس دوران میں سب کی نظریں
بچا کر ایک شخص چپکے چپکے اپنی داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرنے
لگا جیسے تنکا نکالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ قاضی صاحب تو تاک میں تھے ہی لہٰذا فوراً
اس شخص کو پکڑ لیا گیا اور اس نے اقبال جرم کر لیا۔ کہاوت کے معنی یہ
ہوئے کہ مجرم کے دل کا چور کسی نہ کسی طرح ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment