د۔کی
کہاوتیں
(۴۱) دو مُلاؤں کے بیچ
میں مُرغی حرام :
اگر کوئی کام دو اشخاص کے
سپرد کیا جائے توآپس کے جذبۂ مسابقت کے باعث کام میں بہتری کے بجائے
خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس صورت کی تشبیہ دو مُلاؤں سے دی گئی ہے جو
اکیلے مرغی کھانے کے لالچ میں ایک دوسرے کی حلال کی ہوئی مرغی کو حرام کہتے
ہیں گویا وہ اگر خود ذبح نہیں کریں گے تو مرغی حلال ہی نہیں
ہو گی۔
(۴۲) دور کی کوڑی لانا
:
پہلے زمانہ میں
کَوڑی بھی سکّے کی طرح استعمال ہوتی تھی۔تَب ایک روپے میں
چونسٹھ پیسے ہوا کرتے تھے اور ایک پیسے میں پانچ کوڑی۔’’دُور کی
کوڑی لانا‘‘ کی وجہ تسمیہ نہیں معلوم ہو سکی۔ البتہ کہاوت کا مطلب ہے بڑے
پتے کی بات کہنا، غیر معمولی بات کہنا۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۴۳) دولت اندھی ہوتی
ہے :
یہ ضروری نہیں ہے کہ دولت صرف مستحق لوگوں کو
ہی ملے۔ وہ کسی کو بھی مل سکتی ہے اور ملتی بھی ہے۔ اس کہاوت سے ایک حکایت منسوب
ہے۔ مغل بادشاہ تیمورؔ لنگڑا تھا اور اسی لئے تاریخ میں اسے تیمورؔ لنگ کے
نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ ایک بار اس کے دربار میں ایک اندھا آدمی حاضر ہوا
جس کا نام دولتؔ تھا۔ تیمورؔ نے از راہ تمسخر کہا کہ ’’کیا دولت بھی اندھی
ہوتی ہے؟‘‘ اُس اندھے نے دست بستہ عرض کی کہ ’’حضور! اگر اندھی نہ ہوتی تو لنگڑے
کے پاس کیسے آتی؟‘‘ تیمورؔ اس کی حاضر جوابی سے محظوظ ہوا اور اس کو انعام و اکرام
سے نوازا۔
( ۴۴ ) دھوتی کے بھیتر سب
ننگے :
بھیتر یعنی اندر یا نیچے۔ مطلب یہ ہے کہ کریدا جائے تو ہر شخص میں کوئی نہ
کوئی عیب نکل آتا ہے۔
( ۴۵) دھوبی کا کُتا، نہ گھر
کا نہ گھاٹ کا :
پہلے زمانے میں دھوبی لوگوں کے گھر آ
کر ان کے کپڑے دھونے کے لئے ندی یا جھیل کے گھاٹ پر لے جایا کرتا تھا۔ پیشہ
کی مناسبت سے دھوبی کی دَوڑ گھر اور گھاٹ کے درمیان ہی ہوا کرتی تھی اور اُس
کا کتا بھی اس کے ساتھ کبھی گھر اور کبھی گھاٹ مارا مارا پھرتا تھا۔مطلب یہ ہے کہ
جو لوگ خانماں برباد اور بے سرو سامان ہوتے ہیں اُن کو قسمت
جہاں لے جائے وہاں جانا پڑتا ہے
دھوبی کا کُتا نہیں
ReplyDeleteکٙتا ہے اپنی اردو درست کریں