امیر خسرو کے حالات زندگی
امیر خسرو 1253 ء میں شہر پٹیالی میں پیدا ہوئے ۔آپ کا نام
ابوالحسن اور عین الدین لقب تھا، امیرخسرو کے نام سے مشہور عالم ہوئے۔ آپ کے والد
سیف الدین محمود ماوراءلنہر کے ایک شہر کشن
میں مقیم تھے اور وہ ترکوں کے قبیلے ہزارہ اور چین کے سردار تھے۔
چنگیزی حملوں کے دوران امیر خسرو
کے والد نےاپنا وطن چھوڑ ا اور
کابل کے ایک قصبہ غور بند چلے گئے۔ آخر وہاں سے اٹھ کر سر زمین پاک وہند
آگئے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ کب وارد ہند ہوئے لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ امیر خسرو کے والد امیر سیف الدین سلطان شمس الدین شمس کی فوج میں ایک ذمہ دار
عہدے پر فائز تھا۔ سلطان نے فوجی خدمات کی بنائ پر آپ کو امیر کے نام سے سرفراز کیا تھا اور پٹیالی میں جاگیر بھی عطا کی
تھی۔ سیف الدین کی شادی ایک دس ہزار فوج کے آفیسر عماد الملک کی بیٹی سے ہوئی۔ سیف
الدین کے تین بیٹے تھےان میں سے امیر خسرو پٹیالی میں 1253 ئ میں پیدا ہوئے۔
امیر خسرو نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں
کر پائی لیکن وہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔ جلد ہی ابتدائی علوم
حا صل کر لی، خطاطی اور خوش نویسی سیکھی اور آواز بھی ااچھی تھی۔ کم عمری میں ہی شعر کہنے لگے، متعدد زبانیں بھی
جانتے تھے جیسا کہ وہ مثنوی نوسپہتر میں
لکھتے ہیں ۔۔
من بہ زبان ہای بیشتری کردم ام از طبع شناساگری
دانم و دریافت و گفتہ
ہمہ جستہ و روشن شدہ زان بیش دلم
7سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا
پھر آپ کے نانا عماد الملک نے آپ کی پر ورش کی 20 سال کی عمر میں نانا کا بھی انتقال ہوگیا ، آب امیرخسرو مروجہ علوم حاصل کر چکے تھے۔ عربی اور فارسی میں
مہارت حاصل ہو چکی تھی۔ شعرائ گزشتہ کا
کلام نظر سے گزر چکی تھی اور فکرو نظر میں بھی پختگی آگئی تھی ۔
خسرو کی درباری ملازمت کا سلسلہ
سلطان غیاث الدین بلبن کے امیر کشلو خان عرف چھجو
کی ملازمت سے ہوا۔ کسی وجہ سے اس
دربار سے دلبر داشتہ ہو کر بلبن کے بیٹے بغرا خان کے دربار سے وابستہ ہوگئے یہاں پر آپ کی اور بھی قدرو منزلت ہوئی۔ بلبن
کے زمانے میں ایک ترک غلام جو لکھنو اور
بنگال کا حاکم تھا نے بغاوت کی تو بلبن نے
بغراخان کو طغرل کی بغاوت ختم کرنے کیلے بنگال بھیجا۔ امیر خسرو
بھی اس مہم میں شہزادے کے ساتھ تھا اور سلطان بلبن بھی بنگال پہنچا۔ بغاوت ختم کر نے کے بعد شہزادہ بغرا خان کو بنگال کا حکیم مقرر کیا گیا لیکن امیرخسرو
کا دل بنگال میں نہ لگا اور وہ
واپس دہلی آگئے۔ بلبن کا بڑا بیٹا سلطان
محمود جو ملتان کا حاکم تھا دہلی آیا ہوا
تھا، وہ خسرو اور خسرو کے جگری
دوست حسن سنجری کو اپنے ساتھ ملتان لے گیا۔ خسرو پانچ سال تک
ملتان میں رہے۔
امیرخسرو کی زندگی کا اتار چڑھاو۔ 1284 ء میں شہزادہ ولی عہدسلطان محمدمغلوں سے
جنگ لڑتے ہوئے مارا گیا۔ مشہور ہے کہ خسرو بھی گرفتار ہوئے۔ قید سے رہائی کے بعد دہلی واپس آگئے۔ 1287 ءمیں
خسرو صوبیدار اودھ خان جہان کے دربار سے
منسلک ہوا اور دو برس اودھ میں رہے، پھر واپس دہلی گئے کیونکہ ان کی والدہ دہلی میں تھیں
اور اپنے فرزند کی جدائی میں بے قرار تھی۔ وہ دہلی میں سلطان کیقباد کے
دربار سے بحیثیت ملک الشعرائ وابستہ ہوئے۔ 1290ء میں سلطان کیقباد کی وفات کے بعد ان کا کمسن بیٹا شمس الدین بادشاہ بن گئے۔ ایک اور امیر جلال الدین فیروز
خلجی اسکا استاد مقرر ہوا، وہ جلد
ہی شہزادے کو مغزول کر کے خود سلطان میں بیٹھ
گیا۔
اس نے خسرو کو امیر کا لقب عطا کیا۔ 1295ء میں
جلال الدین فیروز خلجی کو اس کے بھتیجے اور داماد
علاوالدین خلجی نے قتل کر دیا اور خود تخت نشین ہوا ۔یہ بادشاہ کفایت شعار تھا ۔اس لیئے انعام واکرام کے سلسلے
میں بھی اس کا ہاتھ کھلا نہیں تھا۔ اس لیئے اس کے عہد میں امیر خسرو بھی زیادہ
خوشحال نہیں تھے لیکن خسرو کے ایک قصیدہ لکھنے
پر بادشاہ نے اسے ایک گاؤں بطور
انعام دیا ۔یہ زمانہ خسرو کی شاعری
کے عروج کا زمانہ تھا ۔خسرو 21 سال تک علاوالدین خلجی کے دربار سے منسلک رہے، علاوالدین خلجی کے بعد اس کا جانشین قطب الدین مبارک خلجی بھی امیر خسرو پر مہربان رہا۔ ایک روایت ہے کہ
جب امیر خسرو نے مثنوی نوسپہر لکھی تو ان
کو ہاتھی کے وزن کے برابر انعام ملا تو خسرو نے کہا ۔
چنین بخششی کز تومن یافتم در
ایام پیشینہ کم یافتم
۔
خلجی خاندان کے بعد غیاث الدین
تغلق جانشین ہوا۔ یہ بادشاہ شعائر اسلامی کا پابند تھا اس لیئے امیرخسرو نے گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا ۔ بظاہر وہ
بھی امیرخسرو کی قدر کرتا تھا لیکن دراصل
وہ نظام الدین اولیائ سے بدگمان تھا
تو لازماً امیر خسرو دل میں اس سے ناخوش
ہوںگے۔غیاث الدین تغلق جب بنگال ہی میں
تھے کہ ان کے پیرومرشد حضرت نظام الدین اولیائ کا انتقال ہوگیا ۔محمدتغلق کی نشینی
کے امیر خسرو نے اس کی مدح میں دو قصیدے
لکھے۔
پیرو مرشد حضرت نظام الدین اولیائ کی جدائی
میں امیر خسرو کا دل صرف شاعری ہی سے نہیں بلکہ زندگی سے بھی بیزار ہوگیا
تھا اور اخر کار 28 ستمبر 1325ئ کو جہان
فانی کو خیر آباد کہا اور اپنے مرشد کے قدموں میں دفن ہوئے۔
مرشد سے محبت۔ امیر خسرو 1272ئ میں حضرت نظام الدین اولیائ کے مرید ہوئے۔حضرت آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ دوسرے مرید مرشد کی
توجہ کے لیئے اکثر امیر خسرو ہی کو وسیلہ
بناتے۔ ایک طرف آپ کا تعلق درباروں سے تھا
اور دوسری طرف حضرت نظام الدین اولیائ کی
بارگاہ سے کسب فیض کرتے تھے۔ امیر خسرو نے بیشتر اشعار اپنے مرشد کو خطاب کرکے کہیں ہیں۔ حضرت نے اپنے اس
مرید پر خاص توجہ دی اور خود بھی مرید کی عاشقی اور سوز و درد کے قائل تھے۔
خوش اخلاقی اور خوش مزاجی۔ امیر خسرو انسان کی حیثیت سے بہت اونچا مقام
رکھتے تھے۔خوش اخلاق اور خوش مزاج بھی تھے ۔تاریخ فیروز شاہی کا مصنف ضیاالدین برفی
جو ان کا دوست تھا ،لکھتا ہے کہ خسرو نے
عمر کا بڑا حصہ عبادت اور قرآن خوانی میں گزارا۔
وہ راست باز ، حق پرست اور پرہیز گار صوفی تھے۔ انہیں اپنے اہل خاندان سے
بہت محبت تھی۔ ماں کی محبت کی خاطر وہ ملازمت چھوڑ کر دہلی آگئے تھے، مثنوی مجنوں
ولیلی کی تالیف کے وقت یعنی1298 ئ میں انکی والدہ اور بھائی حسام الدین وفات پاگئے
تو خسرو نے بہت درد ناک مرثیے لکھے۔ زندگی کے آخری چھ مہینے مرشد کے غم فراق میں گھل گھل کر گزار دئے اور وارخستگی
کے عالم میں اپنے مرشد سے جاملے۔
شہرت۔ امیرخسرو ان خوش نصیب شعرائ
میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی ہی میں شہرت اور مقبولیت حاصل کرلی اور بیشتر کتابیں
اپنی زندگی ہی میں ترتیب دیں۔ آپ نے اپنے پانچ دیوانوں میں خاصے طویل دیباچے
خود اپنے قلم سے لکھے ہیں۔ اکثر قصائد کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کب اور کس کی
شان میں کہے گئے ہیں۔ یہ التزام مثنویوں میں
بھی قائم رکھا ہے
No comments:
Post a Comment