م۔ کی
کہاوتیں
( ۸ ) مایا کے ہیں تین
نام، پرسو، پرسا، پرسرام :
انسان مایا( دولت)
کی پرستش کرتا ہے۔ کسی شخص کو دولت مل جائے تو معاشرہ میں اُس کا مقام ا ور
حیثیت بدل جاتے ہیں۔ جو شخص پرسوؔ کے حقیر نام سے مشہور تھا اب پرساؔ کہلانے لگتا
ہے اور بڑھتے بڑھتے پرسرامؔ ہو جاتا ہے۔
( ۹ ) مارتے کے ہاتھ پکڑ ے جا
سکتے ہیں بولتے کی زبان نہیں پکڑی جاتی :
کہاوت کے معنی اور محل
استعمال ظاہر ہیں۔
(۱۰) ماروں گّھٹنا،
پھوٹے آنکھ :
یعنی ضرب تو گھٹنے پر لگی ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ تمھاری
آنکھ پھوٹ گئی۔ یہ کہاوت ایسے وقت استعمال ہوتی ہے جب کہا یا کیا تو کچھ جائے اور
فریق اس کا مطلب کچھ اور ہی نکال لے جس کی کوئی تُک ہی نہ ہو۔
(۱۱) ماں سے پوت، نسل
سے گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا :
بیٹا تھوڑا بہت ضرور اپنی
ماں کی فطرت اور عادت پر جاتا ہے اور اچھی نسل کے گھوڑے میں کچھ نہ کچھ
اچھائی ہوتی ہے۔ یہی اس کہاوت کا مطلب ہے کہ ہر اچھائی کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبب
ہوتا ہے۔
( ۱۲ ) مانگی موت بھی نہیں
ملتی :
وقت پڑے تو مانگی چیز بھی نہیں ملتی۔
(۱۳) مارے اور رونے نہ
دے :
یعنی ہر طرح سے مجبور کر
رکھا ہے کہ ظالم مارتا بھی ہے اور پھر رونے بھی نہیں دیتا۔
(۴ ۱) مت کرساس برائی، تیرے
بھی آگے جائی :
جائی یعنی بیٹی۔یہ عورتوں کی کہاوت ہے یعنی تو اپنی ساس کی
برائی مت کر کیونکہ تیرے سامنے بھی بیٹی ہے جو کل بیاہی جائے گی اور ساس کے پاس
چلی جائے گی۔اس کہاوت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اے ساس! تو اپنی بہو کی برائی مت
کر کیونکہ تیرے آگے بھی بیٹی ہے۔اِنسان کو دوسروں کی برائی سوچ سمجھ کر کرنی
چاہئے کیونکہ کل وہ بھی اسی صورت سے دو چار ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment