عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دِل بینا بھی خدا سے طلب آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنّت ہے جس میں حُور نہیں
یہ وہ جنّت ہے جس میں حُور نہیں
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحبِ سرور نہیں
ایک بھی صاحبِ سرور نہیں
اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے
اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں
اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں
ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ! وہ دل کہ ناصبور نہیں
آہ! وہ دل کہ ناصبور نہیں
بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تُو تو بے حضور نہیں
زندہ ہو تُو تو بے حضور نہیں
ہر گُہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادۂ طنھور نہیں
تو ہی آمادۂ طنھور نہیں
اَرِنیِۡ مَیں
بھی کہہ رہا ہوں مگر
یہ حدیثِ کلیمؑ و طور نہیں
یہ حدیثِ کلیمؑ و طور نہیں
No comments:
Post a Comment