م۔ کی
کہاوتیں
(۶۰) مُول سے بیاج پیارا ہوتا
ہے :
بیاج(سود) پر روپے قرض دینے والے کو مول یعنی اصل رقم کی
واپسی کی فکر بالکل نہیں ہوتی بلکہ وہ بیاج وصول کرنے کا خواہشمند رہتا ہے
تاکہ قرض کبھی ادا نہ ہو اور سود اِسی طرح ملتا رہے۔
( ۶۱) موئی بھیڑ خواجہ خضر کی
نیاز :
موئی یعنی مری ہوئی۔ لوگ خیرات یا نیاز میں کم قیمت
چیزیں استعمال کرتے ہیں تاکہ خرچ کم ہو لیکن نام بہر حال ہو جائے۔
خواجہ خضر کی نیاز سے مراد نیک کام ہے۔ مری ہوئی بھیڑ حرام ہوتی ہے لیکن کھانے
والوں کو تو اس کا علم نہیں ہوتا کہ وہ مری تھی یا ذبیحہ۔ گویا کہاوت
اِنسان کی خود غرضی کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
( ۶۲ ) موری کی اینٹ چوبارہ
چڑھی :
موری یعنی نالی۔ چوبارہ یعنی بلند مقام۔ اگر کوئی نا اہل
اور کم سواد آدمی اونچے مقام پر فائز ہو جائے تو گویا نالی کی اینٹ کو چوبارہ کی
چنائی میں جگہ دی گئی ہے۔ یہ کہاوت ایسے ہی موقع پر کہی جاتی ہے۔
(۶۳) مونچھ نیچی ہو
جانا :
اونچی مونچھ عزت و افتخار
کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔مونچھ نیچی ہو جانا یعنی بے عزتی ہو جانا۔ اس سلسلہ میں
ایک کہانی مشہور ہے۔ ایک خان صاحب کی بڑی شاندار تلوار مارکہ مونچھیں
تھیں جن کو وہ ہر وقت تاؤ دیتے رہتے تھے۔ ایک دن ان کو بازار
میں ایک بنیا نظر آیا جس کی مونچھیں بھی اُنھیں کی طرح تاؤ دار تھیں۔
بھلا ایک میان میں دو تلواریں کس طرح رہ سکتی تھیں ؟ خان صاحب نے غصہ
میں آکراُس بنئے سے کہا کہ وہ اپنی مونچھ نیچی کر لے لیکن بنئے نے بلا قیمت
ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ آخر خان صاحب نے اس کو منھ مانگے پیسے بطور رشوت دئے
اور بنئے نے اپنی ایک طرف کی مونچھ نیچی کر لی۔ خان صاحب نے جاتے جاتے مُڑ کر
دیکھا کہ اُس کی دوسری جانب کی مونچھ پہلے کی طرح ہی اینٹھی ہوئی تھی تو چراغ پا
ہو گئے۔ بنئے نے ہاتھ جو ڑ کر عرض کی کہ’’ سرکار ! ہمارا معاہدہ تو مونچھ نیچی
کرنے کا تھا۔ اس میں دونوں طرف کی مونچھوں کی شرط تو نہیں
تھی۔ اس کو نیچا کرنے کے لئے الگ سے کچھ عنایت کیجئے ‘‘۔ خان صاحب نے اُس کو
مزید پیسے دئے اور بنئے نے دوسری مونچھ بھی نیچی کر لی۔ خان صاحب اب مطمئن ہو کر
مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے اپنی راہ چل دئے۔
اچھا
ReplyDelete