یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
جب لگی آنکھ ، کراہا یہ کہ بد خواب کیا
نیند بھر کر دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
دردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا
باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں
گرمیِ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا
سچ ہے غم خواریِ بیمار عذابِ جاں ہے
تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا
تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتش
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا
خواجہ حیدر علی آتش
No comments:
Post a Comment