و۔ کی
کہاوتیں
(۱ ) وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا
لیتے ہیں :
کسی کا کام اٹک جائے
تو وہ مطلب بر آری کے لئے خراب سے خراب قدم اٹھانے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے۔ گدھے
کو باپ بنانا اسی جانب اشارہ ہے۔
( ۲ ) ولی کو ولی پہچانتا ہے :
ہم جنس ہی اپنے
ہم جنس کو پہچانتا ہے۔ یہ کلیہ زندگی کے ہر شعبہ میں صحیح ہے۔ اسی مطلب کی
ایک اور کہاوت ہے کہ’’ چور کا بھائی اٹھائی گیرہ‘‘۔
( ۳) وہی مرغے کی ایک ٹانگ :
کوئی اپنی ضد
پر اَڑ جائے اور کسی طرح بات نہ سنے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ اس سے ایک دلچسپ
کہانی وابستہ ہے۔ کسی بادشاہ کے دسترخوان پر مرغ پک کر آیا تو باورچی نے للچا کر
ایک ٹانگ ہڑپ کر لی۔ بادشاہ کے سامنے جب ایک ہی ٹانگ پہنچی تو اس نے باورچی سے وجہ
دریافت کی۔اُس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ’’حضور! اس مرغ کی ایک ہی ٹانگ تھی۔‘‘ بادشاہ
نے کہا کہ’’ کہیں مرغ کے ایک ٹانگ بھی ہو ا کرتی ہے؟ مجھے بھی ایسا مرغ
دکھانا‘‘۔کچھ دنوں کے بعد بادشاہ سلامت کہیں جا رہے تھے۔ سڑک کے کنارے
ایک مرغ ایک ٹانگ پر کھڑا ہوا تھا۔ باورچی نے عرض کی کہ’’ دیکھئے حضور! وہ رہا ایک
ٹانگ کا مرغ۔‘‘ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسی وقت ڈھول بجایا جائے۔ ڈھول کی آواز سے
گھبرا کر مرغ نے اپنی دوسری ٹانگ پروں سے نکالی اور بھاگ لیا۔ بادشاہ نے
باورچی کی طرف دیکھا تو اس نے عاجزانہ کہا کہ ’’حضور! اُس دن میرے پاس ڈھول نہیں
تھا ورنہ میں بھی بجوا دیتا اور مرغ کی دوسری ٹانگ بر آمد کر لیتا‘‘۔
بادشاہ اُس کی حاضر جوابی پر ہنس پڑا اور اس کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ کہاوت
اب ہٹ دھرمی پر بولی جاتی ہے۔
( ۴ ) وہ دن گئے جب خلیل خاں
فاختہ اُڑاتے تھے :
یعنی اچھا وقت گزر گیا اور اب آزمائش اور سختی
کا زمانہ سر پر پڑا ہے۔یہ کہاوت تب کہی جاتی ہے جب کسی کے اقبال کا زمانہ ختم ہو
چکا ہو اور وہ برے دن دیکھ رہا ہو۔کہاوت میں تضحیک کا عنصر ہے۔
No comments:
Post a Comment