مجھے رنگ دے نہ سُرور دے،
مِرے دِل میں خود کو اُتار دے
مِرے لفظ سارے مہک اُٹھیں،
مجھے ایسی کوئی بہار دے
مجھے
دُھوپ میں تُو قریب کر،
مجھے سایہ اپنا نصیب کر
مِری نِکہتوں کو عرُوج دے
مجھے پُھول جیسا وقار دے
مِری
بکھری حالت زار ہے،
نہ
تو چین ہے نہ قرار ہے
مجھے لمس اپنا نواز کے،
مِرے جسم و جاں کو نِکھار دے
تِری راہ کتنی طوِیل ہے،
مِری
زِیست کتنی قلِیل ہے
مِرا وقت تیرا اسِیر ہے،
مجھے لمحہ لمحہ سنْوار دے
مِرے
دِل کی دُنیا اُداس ہے،
نہ تو ہوش ہے نہ حواس ہے
مِرے دِل میں آ کے ٹھہر کبھی،
مِرے ساتھ عُمر گزُار دے
مِری نیند مُونسِ خواب کر،
مِری
رتجَگوں کا حِساب دے
مِرے
نام فصلِ گلاب کر،
کبھی ایسا مجھ کو بھی پیار دے
شبِ
غم اندھیری ہے کِس قدر،
کرُوں
کیسے صُبح کا میں سفر
مِرے چاند آ مِری لے خبر ،
مجھے
روشنی کا حِصار دے
No comments:
Post a Comment