نوائے
دل نے کرشمے دکھائے ہیں کیا کیا
مری اذاں نے نمازی جگائے ہیں کیا کیا
جمال-
یار!! تری آب و تاب کیا کہنے
نظر نظر پہ قدم ڈگمگائے
ہیں
کیا کیا
ادائے
ناز کو انداز- دلبری سمجھے
فریب اہل- محبت نے
کھائے ہیں کیا کیا
زمیں
زمیں نہ رہی، فلک فلک نہ رہا
مقام و وقت بھی
گردش میں آئے ہیں کیا کیا
وہ
تیری شوخ نگاہی، وہ تیری خندہ لبی
دل- غریب پہ چرکے
لگائے ہیں کیا کیا
کبھی
خلوص- محبت کبھی گریز و فرار
بنا بنا کے مقدر مٹائے
ہیں
کیا کیا
کبھی
تو دیکھ، کہ میری تباہ حالی ہر
حیات و موت نے
آنسو بہائے ہیں کیا کیا
ہے
آج خون- تمنا، تو کل امید کی موت
دل- حزیں نے جنازے
اٹھائے ہیں کیا کیا
نگاہ-
قیس!! تری دسترس کو مان گئے
کہاں کہاں سے
مضامیں چرائے ہیں کیا کیا
(راج کمار قیس )
No comments:
Post a Comment