میں
اپنے کاغذ قلم کی دنیا کو پھر سے دیکھو سجارہا ہوں
ترے خیالوں میں جانِ جاناں میں آج کچھ گنگنا رہا ہوں
فلک
کے زینے سے میری چھت پر اتر رہے ہیں حسیں ستارے
اے چاند اب تو اتر کے آؤ
ادب سے تم کو
بلا رہا ہوں
ہزاروں
جگنوں ہیں شمع تھامےکھڑے ہیں الفت کی شاہ راہ پر
چلے بھی آؤ تمہاری
راہوں میں آج پلکیں بچھا رہا ہوں
میں
اپنی غزلوں کو رہن رکھ کر خرید لایا تھا تھوڑی خوشبو
قدم کو مٹی بھی
چھو نہ پائے میں مشک و عنبر بچھا رہا ہوں
تمہاری
آمدکی اس خوشی میں طیور رقصاں ہیں ڈالیوں پر
چمن میں نغمہ سرا
ہے بلبل میں خود بھی غزلیں سنا رہا ہوں
یہاں
گلوں کو وضو کرانے چمن میں آتی ہے روز شبنم
نماز ِعشق و وفا کی خاطر
میں آج خوشبو لگا
رہا ہوں
جفا
کشی کی تمام رسمیں نبھا کے آیا ہوں دنیا والو !
میں اپنی قسمت کے آئینے
کو بذات
خود ہی بنا رہا ہوں
میں
اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں پڑا تھا غربت کی شال اوڈھے
تمہارے دل کا اسیر
بن کر میں خود کو محلوں میں پا رہا ہوں
امیر
زادی ہے کیا ہوا پھر غریب ہوں میں برا بھی کیا ہے
ثمر وفاؤں کے امتحاں میں
متاعِ جاں تک لٹا
رہا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔»»» ثمریاب ثمر
««««۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment