ساغر
صدیقی اور ساغر نظامی
دو شاعر دو غزلیں
ساغر
صدیقی پاکستان
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا
یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ
نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لئے راہوں
میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ
وفا یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح
کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے
سزا، یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار
پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے
کوئی صدا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرِ شام
کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی
ضیاءیاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی
چمک دیکھی ہے
کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے
خفا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ
مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو
خدا یاد نہیں
...................
ساغر نظامی ہندوستان
دشت میں قیس نہیں، کوہ
پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا مگر
آباد نہیں
ڈھونڈنے کو تجھے او میرے
نہ ملنے والے
وہ چلا ہے، جسے اپنا بھی
پتہ یاد نہیں
روحِ بلبل نے خزاں بن کے
اجاڑا گلشن
پھول کہتے رہے، ہم پھول
ہیں صیاد نہیں
حسن سے چوک ہوئی اس کی
ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھول ہوئی ہو، یہ
مجھے یاد نہیں
بربطِ ماہ پہ مضرابِ
فغاں رکھ دی تھی
میں ان نغمہ سنایا تھا،
تمہیں یاد نہیں
لاؤں اک سجدہ کروں عالمِ
بدمستی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو
خدا یاد نہیں
No comments:
Post a Comment