جس
لطافت سے چمن میں جلوہ فرما ہو نسیم
جس نزاکت سے عروس- صبح
کا سرکے نقاب
بوسہ لے کر جیسے پھولوں
کو جگائے موج- نور
لمس سے شبنم کے
ٹوٹیں جس طرح کلیوں کے خواب
رنگ
بھر دے جس طر پھولوں میں نقاش- سحر
بخش دے پہلی کرن جیسے
افق کو آب و تاب
نرم ہلکوروں سے جیسے
کھلکھلا اٹھیں کنول
اور ٹکرا کر کنول
سے جس طرح ٹوٹے حباب
جس
طرح بے چین ہو نافے کی خوشبو سے غزال
اور چھو جانے سے بجلی کے
تڑپ اٹھے سحاب
مسکرائیں جس طرح تارے
نقاب- ابر سے
سرو کی آغوش سے جس
طرح ابھرے ماہتاب
چشم
و لب سے جس طرح ساقی کے ٹپکیں مستیاں
جیسے ہو شیشے میں رقصاں
خود بخود موج- شراب
آتش- گل سے لگے شبنم
کدوں میں جیسے آگ
شعلۂ شبنم سے ہو
پھولوں میں جیسے التہاب
جھیل
میں سرخاب ہوں جس طرح محو اختلاط
مست بط کے تیرنے سے جیسے
ناچے موج- آب
ہوں نسیم و یاسمن میں جس
طرح سرگوشیاں
گدگدانے سے صبا کے
ہنس پڑے جیسے گلاب
ناز سے جھٹکائے زلفیں جیسے ساون کی پری
اس ادا سے وقت نے چھیڑا جوانی کا رباب
تنویر
احمد علوی
No comments:
Post a Comment