نہیں
ہے یوں
نہیں
ہے یوں کہ مرا دُکھ مری حدود میں ہے
نہ
صرف دل ہی دریدہ نہ صرف جاں ہی فگار
نہ
صرف دیکھتی آنکھوں میں حسرتوں کا دھواں
نہ
صرف ہاتھ شکستہ نہ سر پہ زخم ہزار
جو
یوں بھی ہو تو بڑی بات ہے تری قربت
تری
وفا تری چاہت تری مسیحائی
ہر
ایک زخم کو دھو دے شفیق ہاتھوں سے
ہر
ایک درد کو چن لے تری دل آرائی
مگر
یہ درد یہ دُکھ کب مری حدود میں ہے
کہاں
نہیں مرا پیکر ہاں نہیں یہ فغاں
تو اک
وجود کو زندہ تو کر چکے لیکن
ہر اک
صلیب پہ میرا ہی جسم آویزاں
ہر
ایک تیرِ ستم پر مرا لہو لرزاں
کسے
کسے تُو بچائے گی اے مری درماں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment