یہ قول
کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ کچھ
نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
سن سن
کے ترے عشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی
کلیجا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ان کا
یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے
میرا
یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
خط میں
مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں
آخر میں
یہ لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
پھٹتا
ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت
پوچھوں
تو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یہ خوب
سمجھ لیجئے غماز وہی ہے
جو آپ
سے کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
تم کو
یہی شایاں ہے کہ تم دیتے ہو دشنام
مجھ کو
یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
مشتاق
بہت ہیں مرے کہنے کے پر اے داغؔ
یہ وقت
ہی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
٭٭٭
No comments:
Post a Comment