وہ نیناں بھی وہ جادو بھی
وہ گیسو بھی وہ خوشبو بھی
یہ دل تو سبھی کچھ جانتا ہے
پر دوست کا ہے فرمانا کیا
قطعہ
پردہ ہے جو دوری کا ٹک اس کواٹھا سونا
درشن کے جھروکے کا یہ دیپ جلا دونا
دل درد کا مارا ہے کتنا دکھیارا ہے
بس آس کے دامن سے چمٹا بیچارا ہے
ان اجنبی راہوں کی تقدیر جگا دو نا
قطعہ
تم کو معلوم سہی مجھ کو تو معلوم نہیں
درد جب لطف کی منزل سے گزر جاتا ہے
نہ دلاسوں سے بہلتا ہے تڑپتا ہوا دل
نہ نگاہوں کو کسی طور قرار آتا ہے
قطعہ
جو راہ تم نے سمجھائی تھی درمیاں ہے ابھی
ستارو ڈوب چلے ہو سحر کہاں ہے ابھی
وہی امیں ہے وہی اپنا آسماں ہے ابھی
وہی جہاں ہے وہی وسمت جہاں ہے ابھی
سو جاؤ
سب بوجھو گے سب جانو گے سب سمجھو گے
کیا ہم نے سمجھ کر پایا جو تم اب سمجھو گے
بس نیند کی چادر اوڑھ کے غافل سوجاؤ
لوٹ چلے تم اپنے ڈیرے
لوٹ چلے تم اپنے ڈیرے ڈوب چلے ہیں تارے
پردیسی پردیسی میرے بنجارے بنجارے
یاروں دو نین ہمارے یا جنگل کا جھر نا
ہم سے پیت نہ کرنا پیارے ہم سے پیت نہ کرنا
سانجھ سمے کی کومل کلیاں
سانجھ سمے کی کومل کلیاں مسکائیں مرجھائیں
نگری نگری گھومنے والی پھر واپس نہ آئیں
ہم بیلوں پر اوس کے موتی ہم پھولوں کی خوشبو
پی پی پڑا پپہیا بولے کویل کو کو ، کو کو
قطعہ
ہنستا کھیلتا جھومر تو بس اس کے منہ پر کھلتا ہے
بیشک لوگ تجھے بھی چاہیں بیشک تو بھی تمام ہے چاند
آج جو اک لڑکی کو ہم نے چوما چوم کر چھوڑ دیا
قابو میں اوسان نہیں اس لڑکی کا نام ہے چاند
٭٭٭
ایک اک گاؤں
میں ویرانی سی ویرانی ہے
پنشنیں ملتی
ہیں تمغوں کی فراوانی ہے
چاند سے
چہرے والے لوگ
کتنی حسیں مکھڑے کی پھبن تھی
کتنی مدھر آواز کسی کی
رات کی نیند اڑا دیتے ہیں
چاند سے چہرے والے لوگ
بات جب ہم نے کہی تھی تو نہ مانے انشا
اب سوئے دشت چلے خاک اڑانے انشا
شعلے
گر تیرا تصور تجھے پروانہ بنا دے
شعلوں کی حضوری میں وفا سے نہ گزرنا
دولہا کی طرح حجلئہ محبوب میں جا نا
اس حسن جہاں سوز کی تابش سے نہ ڈرنا
کچا ہے تو اے دوست گل خام کی مانند
بھٹی کی تپش تجھ کو سکھائے گی سنورنا
No comments:
Post a Comment