پانچ جولائی پھر نہیں آئی
پانچ جولائی پھر نہیں آئی
پانچ جولائی پھر بھی آنی تھی
چھ مہینے میں جو تمام ہوئی
کس قدر مختصر کہانی تھی
میری فرہانہ اے میری فینی
پیت کچھ روز تو نبھاتی تھی
کون سی شے نہ تھی تمہارے پاس
حسن تھا، ناز تھا ، جوانی تھی
موت دی تم نے زیست کے بدلے
کیا یہی عشق کی نشانی تھی
تم تو بیگانہ ہو گئیں ہم سے
اپنی حالت ہمیں سنانی تھی
تم نے کچھ اور جی میں سوچا تھا
ہم نے کچھ اور بھی ٹھانی تھی
شام تیسیوں نومبر کی
کتنی دلکش تھی کیاسہانی تھی
تیری گفتار میں تلاطم تھا
تیری رفتار میں جوانی تھی
تیرے غمزوں نے ہم کو جیت لیا
ہم نے کب کس ہار مانی تھی
اب فقط یاد کا خرابہ ہے
ورنہ اپنی بھی زندگانی تھی
اپنے لب کیوں بچا لیے تم نے
اپنے انشا کی جاں بچانی تھی
No comments:
Post a Comment