تلانجلی
تو جو کہے تجدید محبت میں تو مجھے کچھ عار نہیں
دل ہے بکار خویش ذرا ہشیار ،ابھی تیار نہیں
صحرا جو عشق جنوں پیشہ نے دکھائے دیکھ چکا
مد و جرز کی لہریں گھٹتے بڑھتے سائے دیکھ چکا
عقل کا فرمانا ہے کہ اب اس دام حسیں سے دور ہوں
زنداں کی دیواروں سے سر پھوڑ مرا نوخیز جنوں
صحبت اول ہی میں شکست جرات تنہا دیکھ چکا
(۲)
کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی
جلوہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی
سوچ رہا ہوں کتنی تمناؤں کو لیے آیا تھا یہاں
مجھ پہ نگاہ لطف تری اب بھی ہے مگر پہلی سی کہاں
آج میں ساقی یاد ہوں تجھ کو درد تہ ساغر کے لیے
کل کی خبر ہے کس کو بھلا اتنا بھی رہے کل یانہ
رہے
دھندکے بادل چھوٹ رہے ہیں ٹوٹتے جاتے ہیںافسو
سوچ رہا ہوں کیوں نہ اسی بے کیف فضا میں لوٹ
چلوں
ساقی رعنا تجھ سے یہی کم آگہی کا شکوہ ہی رہا
لذت و زیرو بم سے رہی محروم نوائے بربط و نے
ڈھل نہ سکے آہنگ میں خاکے آنہ سکی فریاد میں لے
کر دیکھی ہر رنگ میں تو نے سعی نشاط سوزدروں
پھر بھی اے مطرب خلوت محمل میں رہی لیلائے سکوں
کشتی آوارہ کو کسی ساحل کاسہارا مل نہ سکا
دیکھ چکا انجام تمنا ، جان تمنا تو ہی بتا
ہے یہی نشہ غایت صہباساقی رعنا تو ہی بتا
چارہ غم تھا دعوی نغمہ ،خالق نغمہ تو ہی بتا
حسن کا احساںا ٹھ نہ سکے تو عشق کاسوداچھوڑ نہ
دوں
کیف بقدر ہوش نہ ہو تو ساغر صہبا پھوڑ نہ دوں
بربط و نے سے کچھ نہ بنے تو بربط ونے کو توڑ دوں
قطع جنوں میں جرم ہی کیا ہے پھر مری لیلی تو ہی
بتا
No comments:
Post a Comment