ساحل دور سے تو پوں کی دھمک
ساحل دور سے تو پوں کی دھمک تو آتی ہے
کتنی گمبھیر ہے ساون کے نئے چاند کی رات
الکحل کرتی ہیں خوابیدہ رگوں سے چہلیں
سوجتی ہے دل و حشی کو بڑی دو ر کی بات
سینہ بحر پہ طوفان کو دبائے لے کر
رقص کرنے کو چلی آتی ہے بھوتوں کی برات
ساحل دور سے تو پوں کی دھمک آتی ہے
کون ہے کس نے سمندر میں سلامی داغی
جانے کس برج میں الجھی ہے خیالوں کی کمند
کوئی پشتے پر کھڑا چیخ رہا ہے دیکھو
کوئی کشتی تو نہیں دور کہیں ڈوب چلی
ساحل دور سے توپوں کی دھمک آتی ہے
ابر کے ساتھ تو دیکھا ہے گرجتا بادل
کیا گرا دی ہے کہیں موجۂ دریائے فصیل
کیا زمیں بوس ہوا کسی کسری کا محل
حلقۂ رقص میں ہیں باب جزیرے کے بلوچ
وہ جو اک غول نظر آتا ہے مشعل مشعل
درد سینے میں جگائی ہوئی دھیمی پروا
جانے کس دیس سے آئی کہاں جاتی ہے
بحر کاہل کے جزیروں کے افیمی باسی
قسمت مشرق اقصی کے خداوند بنے
ہائے یہ ذہن یہ باتوں سے بہلتا ہی نہیں
ہائے یہ درد کہ برسوں کا ملاقاتی ہے
صبح کاسرخ ستارہ ہوا پیکن سے طلوع
کوس بجتا ہے کہ بڑھے لگی دل کی دھڑکن
ساحل دور سے
توپوں کی دھمک آتی ہے
No comments:
Post a Comment