وہ دوست جنہوں نے من میں میرے
میرے درد کا پودا بویا تھا
وہ دوست تو رخصت بھی ہو چکے
اور بار غم دل ساتھ مرا
اب چارہ گرد کچھ بولو نہیں
اب ان باتوں سے تمہیں حاصل کیا
میرے دوست تو شہد کے گھونٹ پیئے
تجھے تلخ مزے کا پتہ ہی نہیں
تیرے دوست تو ہوں گے جلو میں ترے
ترا دل تو مگر ہے غموں کا امیں
یہ جو اجنبی لوگ ہیں ان کی بتا
کبھی ان کو بھی یاد کرے گا کوئی
کبھی طنز سے پوچھیں گے ایل جہاں
تیرے دوست کا ہاتھ کہاں ہے بتا
مگر اہل وفا تو جھجھکتے نہیں
جہاں سر پہ چمکتی ہے تیغ حنا
بڑے ناز سے دیتے ہیں سر کو جھکا
نہیں مانگتے کچھ بھی اجل کے سوا
No comments:
Post a Comment