لختیِ
سرحد کے وہ رقّاص لڑکے جو بیاہ شادیوں اور خوشی کی تقریبات کے موقعوں پر
عورتوں کا روپ بنا کر ناچتے ہیں
اَدھ کٹے بالوں پہ افشاں کے ستارے
لرزاں
کھردرے گالوں پہ غازے کی تہیں ہانپتی
ہیں
سرد و بے جان سے چہرے پہ تھرکتی آنکھیں
جیسے مرگھٹ میں چراغوں کی لَویں کانپتی
ہیں
ٹوٹتے جسم میں لہرانے کی ناکام اُمنگ
کسی سُوکھی ہوئی ٹہنی کا جھکاؤ جیسے
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی گراں رفتاری
خشک ہوتی ہوئی ندّی کا بہاؤ جیسے
رقص کرتی ہوئی پشواز پہ باہوں کی اُڑان
بادباں جس طرح گرداب میں چکراتے ہیں
یا کسی جھیل میں کنکر کے گرا دینے سے
چند لمحوں کے لئے دائرے بن جاتے ہیں
گرد آلود سے ماتھے پہ پسینے کی نمی
ریگزاروں سے عرق پھُوٹ رہا ہو جیسے
جھنجھناتے ہوئے ہر گام پہ پیلے گھنگرو
دُور اک شیش محل ٹوٹ رہا ہو جیسے
زندگی بال فشاں، خاک بہ رُخ، نالہ بلب
منجمد، ساکن و حیران ہیولے کی طرح
چند تانبے کے تراشے ہوئے سکّوں کی طرح
ڈھول کی تھاپ پہ رقصاں ہے بگولے کی طرح
٭٭٭
No comments:
Post a Comment