مرے
ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں دردِ
عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دُعا نہ دے
میں
غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں
میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خُدا نہ دے
نہ
یہ زندگی مری زندگی، نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال و وہم
سے دور ہوں، مجھے آج کوئی صدا نہ دے
مرے
گھر سے دور ہیں راحتیں، مجھے ڈھونڈتی ہیں مصیبتیں
مجھ خوف یہ کہ
مرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے
مجھے
چھوڑ دے مرے حال پر، ترا کیا بھروسہ اے چارہ گر
یہ تری نوازشِ
مختصر ، مرا درد اور بڑھا نہ دے
مرا
عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ
گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے
درِ
یار پہ بڑی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ابھی نیند آئی
ہے حُسن کو کوئی شور کر کے جگا نہ دے
مرے
داغِ دل سے ہے روشنی یہی روشنی مری زندگی
مجھے ڈر ہے اے
مرے چارہ گر یہ چراغ تُو ہی بُجھا نہ دے
وہ
اُٹھے ہیں لے کے خم و سبو، ارے اے شکیل کہاں ہے تُو
ترا جام لینے کو
بزم میں ، کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے
شکیل
بدایونی
No comments:
Post a Comment