﴿
میرے پاس حلب کی ماں کے سوالوں کا جواب نہ تھا ﴾
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں اکیلا تنہا بلبلِ رسول جنید بھایٴ کی قبر کے کنارے
بیٹھا تھا،اورسرد ہوا میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی،اور گویا ایک خاموش پیغام دے رہی
تھی۔،کہ تو کس کس کی قبر پر حاضری دے گا؟ کیا تو حلب کے بچوں کی آہ وفغاں کوبھول
گیا، جو بےآب وگیاہ بغیر گوروکفن کے مٹی کے ملبے تلے زندہ درگور کردےٴ گےٴ۔
میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ایک اور ہوا کا جھونکا میرے کانوں کی لوء سے ٹکراتا،اور
جھنجھوڑتا ہوا گزر گیا۔
ایک اور سوال نے جنم لیا کہ إ
کیا تو حلب کی بہن کی قبر پر بھی جاےٴ گا ؟؟؟
جس کی عزت وناموس کو شام،ایران اور روسی درندوں نے چاک کرکے ہمیں یہ خاموش
پیغام دیا ہے کہ ہم عنقریب تمہارے گھر میں بھی داخل ہونگے،اور تم یوں ہی بیغیرتی کے
کوہ ہمالیہ بنے رہو گے۔
خواب وخیال کے لامتناہی سلسلوں میں ،میں بہت دیر تک ڈوبتا اور سوچتا چلا گیا،کہ یکا یک
آنسووٴں کی لڑی میرے ضبط کی دیوار میں دراڑ ڈال گیٴ۔
اور پوچھنے والے نے ایک اور سوال میری جھولی میں لا پھینکا۔
کہ تیری ایک اور ماں بھی ہے جسے حلب کی گلیوں میں گھسیٹ گھسیٹ کراسے اپنی ہی سسکیوں اور
چیخ وپکار میں دفن کر دیا گیا۔
حلب کی ماں چلاتی رہی، چلاتی رہی، چلاتی رہی
کہ کہاں ہیں وقت کے محمد بن قاسم ؟؟
کہاں ہیں طارق بن ذیاد کے بیٹے؟؟
کہاں ہیں صلاح الدین ایوبی کے روحانی فرزند؟؟؟
کہاں گیٴ محمود غزنوی کی اولاد؟؟
کہاں گےٴ وہ لوگ جو خالد کی تلوار پہ نازاں تھے؟؟
کہاں گےٴ وہ بیٹے جو نورالدین زنگی جیسی تڑپ رکھتے تھے؟؟؟
کہاں گےٴ حیدرِ کرار کی شجاعت کا دم بھرنے والے؟؟
کہاں گےٴ وہ لوگ جوخلیفہ راشد فاروقِ اعظم کی ولولہ انگیزطرزِحکمرانی کے امین تھے؟؟
کہاں گیٴ عبداللہ ابن مبارک کی طرز پر ایک سال تک جہاد کرنے والی قوم؟؟
کہاں گےٴ وہ بیٹے جو سعد بن وقاص کی طرح تیر چلایا کرتے تھے؟ﺍ؟
کہاں گےٴ طلحة بن عبیداللہ کی طرح ڈھال بن کر اپنے پاک پیغمبر کا دفاع کرنے والے؟؟؟
کہاں ہیں ٹیپو سلطان کے نام لیوا؟؟؟
کہاں کھوگےٴ خباب بن ارت کی مثال جان لٹانے والے؟؟؟
کہاں گےٴ وہ سیاست داں جو امیرِمعاویہ کی پاک سیاست کے مہرومنیر تھے؟؟؟
ہاےٴ کہاں گیا وہ ٭شیخ یسین٭ جو معذوری کے باوجود یہودی بھیڑوں سے لڑتا رہا؟؟؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں اکیلا تنہا بلبلِ رسول جنید بھایٴ کی قبر کے کنارے
بیٹھا تھا،اورسرد ہوا میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی،اور گویا ایک خاموش پیغام دے رہی
تھی۔،کہ تو کس کس کی قبر پر حاضری دے گا؟ کیا تو حلب کے بچوں کی آہ وفغاں کوبھول
گیا، جو بےآب وگیاہ بغیر گوروکفن کے مٹی کے ملبے تلے زندہ درگور کردےٴ گےٴ۔
میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ایک اور ہوا کا جھونکا میرے کانوں کی لوء سے ٹکراتا،اور
جھنجھوڑتا ہوا گزر گیا۔
ایک اور سوال نے جنم لیا کہ إ
کیا تو حلب کی بہن کی قبر پر بھی جاےٴ گا ؟؟؟
جس کی عزت وناموس کو شام،ایران اور روسی درندوں نے چاک کرکے ہمیں یہ خاموش
پیغام دیا ہے کہ ہم عنقریب تمہارے گھر میں بھی داخل ہونگے،اور تم یوں ہی بیغیرتی کے
کوہ ہمالیہ بنے رہو گے۔
خواب وخیال کے لامتناہی سلسلوں میں ،میں بہت دیر تک ڈوبتا اور سوچتا چلا گیا،کہ یکا یک
آنسووٴں کی لڑی میرے ضبط کی دیوار میں دراڑ ڈال گیٴ۔
اور پوچھنے والے نے ایک اور سوال میری جھولی میں لا پھینکا۔
کہ تیری ایک اور ماں بھی ہے جسے حلب کی گلیوں میں گھسیٹ گھسیٹ کراسے اپنی ہی سسکیوں اور
چیخ وپکار میں دفن کر دیا گیا۔
حلب کی ماں چلاتی رہی، چلاتی رہی، چلاتی رہی
کہ کہاں ہیں وقت کے محمد بن قاسم ؟؟
کہاں ہیں طارق بن ذیاد کے بیٹے؟؟
کہاں ہیں صلاح الدین ایوبی کے روحانی فرزند؟؟؟
کہاں گیٴ محمود غزنوی کی اولاد؟؟
کہاں گےٴ وہ لوگ جو خالد کی تلوار پہ نازاں تھے؟؟
کہاں گےٴ وہ بیٹے جو نورالدین زنگی جیسی تڑپ رکھتے تھے؟؟؟
کہاں گےٴ حیدرِ کرار کی شجاعت کا دم بھرنے والے؟؟
کہاں گےٴ وہ لوگ جوخلیفہ راشد فاروقِ اعظم کی ولولہ انگیزطرزِحکمرانی کے امین تھے؟؟
کہاں گیٴ عبداللہ ابن مبارک کی طرز پر ایک سال تک جہاد کرنے والی قوم؟؟
کہاں گےٴ وہ بیٹے جو سعد بن وقاص کی طرح تیر چلایا کرتے تھے؟ﺍ؟
کہاں گےٴ طلحة بن عبیداللہ کی طرح ڈھال بن کر اپنے پاک پیغمبر کا دفاع کرنے والے؟؟؟
کہاں ہیں ٹیپو سلطان کے نام لیوا؟؟؟
کہاں کھوگےٴ خباب بن ارت کی مثال جان لٹانے والے؟؟؟
کہاں گےٴ وہ سیاست داں جو امیرِمعاویہ کی پاک سیاست کے مہرومنیر تھے؟؟؟
ہاےٴ کہاں گیا وہ ٭شیخ یسین٭ جو معذوری کے باوجود یہودی بھیڑوں سے لڑتا رہا؟؟؟
حلب
کی ماں شام کی گلیوں میں بھاگ بھا گ کر چیخ وپکار میں اس قدر مگن تھی کہ
اسے یہ تک احساس نہ ہوا کہ اس کا مبارک جسم گولیوں کی بوچھاڑ سےچھلنی چھلنی ہے،
لیکن وہ پھر بھی ایک امید کی کرن لےٴ اپنے بیٹوں کو ڈھونڈ رہی تھی،کہ شاید کویٴ
حلالی بیٹا حلب کی ماں کی آہ وپکار کو پہنچے۔
قبر کے کنارے بیٹھے مجھ لاچار کے پاس کویٴ جواب نہ تھا، سواےٴ یہ کہ
اے حلب کی ماں ہم سے مدد ونصرت کی توقع نہ رکھ ۔
ہم تو وہ ہیں جو لال مسجد میں قال اللہ اور قال الرسول پڑھنے والی معصوم
بچیوں کو فاسفورس کے بموں سے جلا دیتے ہیں۔
ہم وہ نا مرد ہیں جو باجوڑ کے ۳۰۰ بچوں کے قاتل ہیں۔
ہم وہ بے حس سیاست داں ہیں جو بھتے کی خاطر ۳۰۰ مزدوروں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔
ہم وہ ہیں جنھوں نے ۸ اکتوبر کو وکیلوں کو بھی آگ لگادی تھی۔
ہم وہ ہیں جنھوں نے ١۲ میٴ کو خون کی ناحق ہولی کھیلی تھی۔
ہم وہ ہیں جو پشاوراسکول کے نونہالوں کوخون کے دریا میں ڈبو دیتے ہیں ۔
اے حلب کی ماں ہم وہ بکاوٴ مال ہیں جن کے بارے میں ہنری کسنجر نے کہا تھا إ
کہ پاکستانی سیاست دان ڈالروں کی خاطر اپنی سگی ماں کو بھی بیچ دیں گے۔
سو ہم نے وہی کیا اور ڈالروں کی چمک دمک کی خاطر عافیة صدیقی کو بیچ ڈالا۔
اے حلب کی ماں ٭اے حلب کی بہن
ہم شرمندہ ہیں ۔کیوں کہ ہم نے اپنی ہی بہن عافیہ کوبیچ ڈالا ہے،بھلا ہم خوابِ غفلت کی چادر
اوڑھے تیری مدد کو کیسے آسکتے ہیں؟؟؟
اے ماں ہم سے یہ امید نہ رکھ ۔
میں قبر کے سرھانے بیٹھا تھا کہ موٴذن نے مغرب کی نماز کے لےٴ صدا بلند کی اور
میرے پاس حلب کی ماں کے سوالوں کا کویٴ جواب نہ تھا ۔اور میں یہ کہتا ہوا اورآنسووٴں کی لڑی پروتے ٴ ہوےٴ، کفِ افسوس ملتے ہوےٴ قبرستان
سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ اے کاش إ جنید کی جگہ اس قبر کی پاتال میں میری لاش ہوتی۔
نہ میں زندہ ہوتا اور نہ ہی حلب کی ماں مجھ سے اتنے سوالات کرتی۔
اسے یہ تک احساس نہ ہوا کہ اس کا مبارک جسم گولیوں کی بوچھاڑ سےچھلنی چھلنی ہے،
لیکن وہ پھر بھی ایک امید کی کرن لےٴ اپنے بیٹوں کو ڈھونڈ رہی تھی،کہ شاید کویٴ
حلالی بیٹا حلب کی ماں کی آہ وپکار کو پہنچے۔
قبر کے کنارے بیٹھے مجھ لاچار کے پاس کویٴ جواب نہ تھا، سواےٴ یہ کہ
اے حلب کی ماں ہم سے مدد ونصرت کی توقع نہ رکھ ۔
ہم تو وہ ہیں جو لال مسجد میں قال اللہ اور قال الرسول پڑھنے والی معصوم
بچیوں کو فاسفورس کے بموں سے جلا دیتے ہیں۔
ہم وہ نا مرد ہیں جو باجوڑ کے ۳۰۰ بچوں کے قاتل ہیں۔
ہم وہ بے حس سیاست داں ہیں جو بھتے کی خاطر ۳۰۰ مزدوروں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔
ہم وہ ہیں جنھوں نے ۸ اکتوبر کو وکیلوں کو بھی آگ لگادی تھی۔
ہم وہ ہیں جنھوں نے ١۲ میٴ کو خون کی ناحق ہولی کھیلی تھی۔
ہم وہ ہیں جو پشاوراسکول کے نونہالوں کوخون کے دریا میں ڈبو دیتے ہیں ۔
اے حلب کی ماں ہم وہ بکاوٴ مال ہیں جن کے بارے میں ہنری کسنجر نے کہا تھا إ
کہ پاکستانی سیاست دان ڈالروں کی خاطر اپنی سگی ماں کو بھی بیچ دیں گے۔
سو ہم نے وہی کیا اور ڈالروں کی چمک دمک کی خاطر عافیة صدیقی کو بیچ ڈالا۔
اے حلب کی ماں ٭اے حلب کی بہن
ہم شرمندہ ہیں ۔کیوں کہ ہم نے اپنی ہی بہن عافیہ کوبیچ ڈالا ہے،بھلا ہم خوابِ غفلت کی چادر
اوڑھے تیری مدد کو کیسے آسکتے ہیں؟؟؟
اے ماں ہم سے یہ امید نہ رکھ ۔
میں قبر کے سرھانے بیٹھا تھا کہ موٴذن نے مغرب کی نماز کے لےٴ صدا بلند کی اور
میرے پاس حلب کی ماں کے سوالوں کا کویٴ جواب نہ تھا ۔اور میں یہ کہتا ہوا اورآنسووٴں کی لڑی پروتے ٴ ہوےٴ، کفِ افسوس ملتے ہوےٴ قبرستان
سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ اے کاش إ جنید کی جگہ اس قبر کی پاتال میں میری لاش ہوتی۔
نہ میں زندہ ہوتا اور نہ ہی حلب کی ماں مجھ سے اتنے سوالات کرتی۔
تحریر : مولانا شفقت صاحب
No comments:
Post a Comment