شادی اور عصر حاضر کے والدین کے بے تُکے اعتراضات
سوچنے کی بات ہے۔۔آخر وہ کیا شے ہے جس نے ہمارے ذہنوں سے ایک اہم سنت کی
اہمیت کو ختم کر دِیا۔۔وہ سُنّت جسے اپنا کر انسان اپنا ایمان بچا سکتا ہے۔۔وہ
سُنت جسے اپنا کر فحاشی اور غلاظت کے بازار کو ختم کرنے کی اُمید جاگ سکتی ہے۔۔
جی ہاں میرا اشارہ شادی کی طرف ہے۔۔ عصرِ حاضر میں جہاں ہر سُو نیم برہنگی دیکھنے کو ملتی ہے وہاں اپنا ایمان بچانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ لکڑی کو آگ سے بچانا۔۔ایک جوان شخص کے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کانٹوں پہ ننگے پاؤں چلنا۔۔مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔۔مگر پھر بھی انسان ہے۔۔خطا کا پُتلا ہے۔۔ کوتاہی، اغلاط سرزد ہو ہی جاتی ہیں۔۔نگاہ نیچے تو رکھ لے گا۔۔مگر اُس شخص کے اندر بھی تو ایک خواہش ہے۔۔یاد، رہے اس بات کو لے کر تنقید کرنے کی بجائے کچھ لمحے کے لئے سوچا جائے تو یہ باتیں آپ کو حقیقت معلوم ہوں گی۔۔
جی ہاں میرا اشارہ شادی کی طرف ہے۔۔ عصرِ حاضر میں جہاں ہر سُو نیم برہنگی دیکھنے کو ملتی ہے وہاں اپنا ایمان بچانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ لکڑی کو آگ سے بچانا۔۔ایک جوان شخص کے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کانٹوں پہ ننگے پاؤں چلنا۔۔مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔۔مگر پھر بھی انسان ہے۔۔خطا کا پُتلا ہے۔۔ کوتاہی، اغلاط سرزد ہو ہی جاتی ہیں۔۔نگاہ نیچے تو رکھ لے گا۔۔مگر اُس شخص کے اندر بھی تو ایک خواہش ہے۔۔یاد، رہے اس بات کو لے کر تنقید کرنے کی بجائے کچھ لمحے کے لئے سوچا جائے تو یہ باتیں آپ کو حقیقت معلوم ہوں گی۔۔
ایک بہت بڑی نیک عورت گزری ہیں۔۔معذرت کے نام اس ناقص ذہن سے نکل گیا۔۔ان کے بارے میں میں نے پڑھا۔۔لکھا تھا کہ جوانی کی عُمر میں ہی وہ بیوہ ہوگئیں اور انہوں نے دوسری شادی نہ کی اور اپنی ساری عُمر اللہ کے لئے وقف کر دی۔۔دن کو روزے راتوں کو نوافل۔۔ساری زندگی ایسے ہی گزاری۔۔جب وقتِ نزع قریب آیا تو ان سے کہا گیا کہ کوئی نصیحت کریں تو انہوں نے کہا کہ ''اپنی جوان بیٹیوں کو گھر پہ نہ رکھو۔۔جتنا جلد ہوسکے ان کی شادی کروادو۔۔مانا کہ میں نے اپنی ساری عمر اللہ کو رازی کرنے میں لگا دی مگر جب راتوں کو میں نماز پڑھا کرتی تھی یا تلاوت کیا کرتی تھی تو اس دوران جب کبھی میں گلی کے چوکیدار کی آواز سُن لیتی تو کبھی کبھی میرا مَن بھی منہ غلاظت میں مارنے کو کیا کرتا، مگر میرے رب نے اپنے فضل سے مجھے بچایا۔۔''یہ تھا ایک نیک عورت کا قصّہ جو کہ اپنے دور کی سب سے نیک خاتون تھیں۔۔ان کی اس نصیحت کو مدّ نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنسی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے۔۔ کسی بھی قسم کی غلط سوچ اور غلط عمل سے بچنے کا ایک واحد راستہ نکاح کا ہے۔۔
عصرِ حاضر میں جہاں دیکھو عشق معشوقی کا کھیل چل رہا ہے۔۔مانا کہ محبت ہو
جاتی ہے۔۔مگر کچھ لوگ ہوس کو محبت کا نام دے بیٹھتے ہیں۔۔اور اکثرو بیشتر لوگ ایسے
بھی ملیں گی جنہیں اعتراض ہمیشہ جلدی شادی کرنے پر ہوتا ہے چاہے ان کے بچوں کے
تعلقات (Affairs) سولہ سال کی عمر میں ہی چلنے شروع ہوگئے ہوں۔۔
اور اکثر نوجوانوں کی شادی اس لئے نہیں ہو پاتی کہ وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ آج کل کے زمانے کے مطابق شادی کر سکیں۔۔آج کل کے زمانے میں زیور، ڈھول باجا، ولیمہ اور بہت سی اور رسومات کا کسی غریب سے مطالبہ کر لیا جائے تو بے چارہ کہاں جائے گا۔۔بالکل ایسا ہی معاملہ لڑکیوں کے لئے ہے۔۔جہیز کے لئے پیسہ ایک غریب باپ کہاں سے لائے جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے دن کیا رات کیا، تمام تفریق ختم کرتے ہوئے مزدوری کرتا ہو۔۔
میڈیا اور ٹی وی ڈراموں نے ہماری ذہن سازی ایسی کی ہے کہ جلد شادی کرنے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔۔افسوس کی شدت انتہا کو چھوتی ہے کچھ علماء کو بھی ایسا پایا کہ جو اپنی بچیوں اور بچوں کی شادی تاخیر سے کرنے کے حق میں نکلے۔۔معذرت کے ساتھ ان علماء کے بارے میں لکھنا یا تنقید کرنا، میں خود کو اس قابل نہیں سسمجھتا۔۔
مگر ایسے علماء پر صردف اعتراض اُٹھا ہی سکتا ہوں۔۔کیوں کہ جو کچھ سیکھنا ہے۔۔انہی سے سیکھنا ہے۔۔جب انہی کا یہی عالم ہو تو باقیوں کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔۔ (اس بارے میں کوئی سوال مت کیا جائے۔۔صرف علماء سے رابطہ کیا جائے
اور اکثر نوجوانوں کی شادی اس لئے نہیں ہو پاتی کہ وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ آج کل کے زمانے کے مطابق شادی کر سکیں۔۔آج کل کے زمانے میں زیور، ڈھول باجا، ولیمہ اور بہت سی اور رسومات کا کسی غریب سے مطالبہ کر لیا جائے تو بے چارہ کہاں جائے گا۔۔بالکل ایسا ہی معاملہ لڑکیوں کے لئے ہے۔۔جہیز کے لئے پیسہ ایک غریب باپ کہاں سے لائے جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے دن کیا رات کیا، تمام تفریق ختم کرتے ہوئے مزدوری کرتا ہو۔۔
میڈیا اور ٹی وی ڈراموں نے ہماری ذہن سازی ایسی کی ہے کہ جلد شادی کرنے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔۔افسوس کی شدت انتہا کو چھوتی ہے کچھ علماء کو بھی ایسا پایا کہ جو اپنی بچیوں اور بچوں کی شادی تاخیر سے کرنے کے حق میں نکلے۔۔معذرت کے ساتھ ان علماء کے بارے میں لکھنا یا تنقید کرنا، میں خود کو اس قابل نہیں سسمجھتا۔۔
مگر ایسے علماء پر صردف اعتراض اُٹھا ہی سکتا ہوں۔۔کیوں کہ جو کچھ سیکھنا ہے۔۔انہی سے سیکھنا ہے۔۔جب انہی کا یہی عالم ہو تو باقیوں کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔۔ (اس بارے میں کوئی سوال مت کیا جائے۔۔صرف علماء سے رابطہ کیا جائے
اور یہ الفاظ مجھے کہنے پڑے۔۔کیونکہ
جو حق بات ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی۔۔
خُدا نے مجھ کو دیا ہے دِل خبیرو بصیر۔۔
خُدا نے مجھ کو دیا ہے دِل خبیرو بصیر۔۔
اور ایک اور شعر آپ لوگوں کی نذر۔۔
میرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں
سر دیوار لکھتا ہوں پس دیوار کے قصے
😊۔۔
میرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں
سر دیوار لکھتا ہوں پس دیوار کے قصے
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدارا اپنی نسلوں اور ایمان کو ضائع ہونے سے بچایا
جائے۔۔
بچوں اور بچیوں کے بالغ ہوتے ساتھ ہی ان کہ شادی کا بندوبست کیا جائے۔۔بچیوں کے والدین کو اگر کوئی اچھا رشتہ ملتا ہے تو عمر کا مسلہ بنا کر انکار کرنے کی بجائے سوچیں۔۔کیونکہ اگر یہ بچے اپنے ایمان سے بھٹک بیٹھے تو روزِ قیامت پوچھ انہی والدین سے ہوگی۔۔اور روزگار کا مسلہ بنا کے شرائط رکھنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔۔ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔۔اور میں عالم تو نہیں۔۔مگر علماء سے سُنا ہے کہ ''جو شخص نکاح کرتا ہے، اللہ اسے اپنے فضل سے غنی کردیتا ہے'' ایسا احادیث و قرآن میں آیا ہے۔۔
ہوش کے ناخن لو۔۔کہیں یہ نہ ہو کہ ناخن تو لے لو مگر منہ میں۔۔
اللہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔۔
آمین۔۔
بچوں اور بچیوں کے بالغ ہوتے ساتھ ہی ان کہ شادی کا بندوبست کیا جائے۔۔بچیوں کے والدین کو اگر کوئی اچھا رشتہ ملتا ہے تو عمر کا مسلہ بنا کر انکار کرنے کی بجائے سوچیں۔۔کیونکہ اگر یہ بچے اپنے ایمان سے بھٹک بیٹھے تو روزِ قیامت پوچھ انہی والدین سے ہوگی۔۔اور روزگار کا مسلہ بنا کے شرائط رکھنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔۔ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔۔اور میں عالم تو نہیں۔۔مگر علماء سے سُنا ہے کہ ''جو شخص نکاح کرتا ہے، اللہ اسے اپنے فضل سے غنی کردیتا ہے'' ایسا احادیث و قرآن میں آیا ہے۔۔
ہوش کے ناخن لو۔۔کہیں یہ نہ ہو کہ ناخن تو لے لو مگر منہ میں۔۔
اللہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔۔
آمین۔۔
تحریر: محمد عمر خطاب
No comments:
Post a Comment