آ۔ کی
کہاوتیں
( ۶ ) آبِ زر سے
لکھنے کے قابل ہے :
بڑے کارنامے آبِ زر یعنی سونے کے پانی سے لکھنے
کے قابل ہوتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۷ ) آپ جانیں
اور آپ کا ایمان :
یعنی آپ اپنی نیت دیکھ کر
خود ہی فیصلہ کریں کیونکہ نتائج کے بھی آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اسی کہاوت کی ایک
دوسری شکل ہے کہ’’ آپ جانیں اور آپ کا کام۔‘‘
( ۸ ) آپ سے آتی
ہے تو آنے دو :
یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی
جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز قرار دینے کا حیلہ تلاش کر
رہا ہو۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ ایک مولوی صاحب کے گھر میں پڑوسی
کا مرغ آ گیا۔ ان کی بیوی نے مرغ پکڑ لیا اور ذبح کر کے پکا بھی لیا۔ جب مولوی
صاحب شام کو کھانے پر بیٹھے تو مرغ دیکھ کر پوچھا کہ ’’یہ کہاں سے آیا؟ ‘‘
بیوی کے بتانے پر انھوں نے فرمایا کہ ’’یہ تو حرام ہے، بھلا میں کسی
اور کا مال اس طرح نا جائز طور پر کیسے کھا سکتا ہوں ؟ ‘‘ بیوی نے جواب دیا کہ’’
سو تو ٹھیک ہے لیکن سالن تو ہمارے ہی پیسوں کا بنا ہوا ہے۔اس میں کیا
قباحت ہے؟ ‘‘ مولوی صاحب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور انھوں نے
بیوی سے کہا کہ وہ اُن کو صرف سالن نکال دے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا لیکن احتیاط کے
باوجود ایک بوٹی پیالے سے لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گری۔ بیوی نے اس
کو نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے کہا کہ’’ نہیں نہیں ! جو بوٹی آپ سے
آتی ہے اُس کو آنے دو۔ ‘‘ بیوی نے کہا کہ’’ وہ مرغ بھی تو آپ سے ہی ہمارے گھر آ
گیا تھا۔‘‘ مولوی صاحب کی نیت تو پہلے ہی ڈانوا ڈول تھی۔ فوراً بیوی
کی بات پر راضی ہو گئے اور دونوں مفت کا مرغ ہضم کر گئے۔
(۹) آپ کھائے،
بَلّی کو بتائے :
کوئی شخص غلط کام تو خود کرے لیکن اپنے آپ کو
معصوم ظاہر کرنے کے لئے نام دوسروں کا لے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۱۰) آپ میاں
صوبیدار، گھر بیوی جھونکے بھاڑ :
یعنی آپ خود تو شان سے بڑے آدمی بنے پھرتے ہیں
لیکن بیوی گھر میں خستہ حال ہے۔ جب کوئی شخص شیخی تو بہت بگھارتا ہو
لیکن اندر سے کھوکھلا ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment