ایک
عورت، دو چہرے!
پہلا منظر:
میں بچوں کے ساتھ کافی مصروف ہوتی ہوں۔ تفصیل سے
صفائی کا وقت نہیں مل پاتا۔ کل میری بہن مجھ سے ملنے آئی تو سارے کچن کو چمکا کے
گئی ہے۔ واقعی بہنوں کو کوئی نعم البدل نہیں۔
دوسرا منظر:
میں بچوں کے ساتھ کافی مصروف ہوتی ہوں۔ تفصیل سے
صفائی کا وقت نہیں مل پاتا۔ کل میری نند ہم سے ملنے آئی تو سارے کچن کو صاف کر کے
گئی ہے، تا کہ مجھے بتا سکے کہ میرا گھر تو گندا ہے اور وہ بڑی صفائی پسند ہے۔ہونہہ!
پہلا منظر:
گھر میں مہمان آئیں تو سارا کھانا امی ہی بنا لیتی
ہیں، بھابیوں نے بس ٹیبل سیٹ کر دیا، ہلکی پھلکی صفائی کر لی اور بس۔ کچن تو امی
ہی سنبھال لیتی ہیں۔ ایسی ساس تو قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔
دوسرا منظر:
گھر میں مہمان آئیں تو سارا کھانا میری ساس ہی
بناتی ہیں، مجھے بس ٹیبل سیٹ کرنے اور صفائی ستھرائی پر لگا دیتی ہیں اور کچن خود
سنبھال لیتی ہیں تا کہ جب مہمان پوچھیں کہ کھانا تو بڑا لذیذ ہے تو سارا کریڈٹ خود
لے لیں۔ ہونہہ!
پہلا منظر:
ہم انگلینڈ میں رہتے ہیں۔ میں تو روز امی ابو سے
بات نہ کر لوں تو دن ہی نہیں گزرتا۔ شکر ہے واٹس ایپ اور سکائپ ہیں، دوری کا احساس
کم ہوتا ہے۔
دوسرا منظر:
ہم
انگلینڈ میں رہتے ہیں۔ میرا شوہر تو ویک اینڈ کے انتظار میں ہوتا ہے۔ جب تک پورا
گھنٹہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں سے بات نہ کر لے، چین نہیں آتا اسے۔ حد ہے! ہم نے
بھی تو ایک ویک اینڈ ہی گزارنا ہوتا ہے اسکے ساتھ۔ سارا ہفتہ انتظار کرو اور صبح
سے ہی فون شروع ہو جاتے ہیں۔ ہونہہ!
پہلا
منظر:
تینوں بھائیوں کی شادی ہو گئی ہے اور ماشا اللہ
سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ بھابیوں کا تو موڈ خراب ہوتا ہے لیکن شکر ہے بھائی
بہت اچھے اور امی ابو کے فرمانبردار ہیں۔ اللہ تعالی یونہی میرے میکے کو ہنستا
بستا رکھیں۔
دوسرا منظر:
میری شادی ہو چکی ہے اور میرا حق ہے کہ میرا الگ
گھر ہو۔ مجھے میرا الگ گھر چاہئے، میں اس گھر میں اپنے بچے نہیں پال سکتی۔ ہونہہ!
ان جیسی
کتنی ہی مثالوں سے ہمارا معاشرہ بھرا ہوا ہے، جہاں ہمارے معیار رشتوں کے حساب سے
بدلتے رہتے ہیں۔ جس چیز کو دوسرے کے لئے غلط سمجھتے ہیں، اپنے لئے اسے جائز کر
لیتے ہیں۔
تحریر: نیر تاباں
No comments:
Post a Comment