ایک
چراگاہ ہو وسیع اور ساتھ بکریوں کا ریوڑ
تحریر:. محمدگل:
میں نے چراگاہوں کی زندگی کا
قریبی مشاہدہ کیا ہے۔ زندگی کا اصل رنگ و ڈھنگ اور لطف و سرور انہی دشتوں میں پائی
جاتی ہے۔ وسیع، کشادہ اور سرسبز دشتیں جہاں زندگی اپنی حقیقی روپ میں اور اصلی
لوازمات کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔
ویرانی، سکوت اور تنہائیاں۔
قدرت کے زرنگار نظارے۔
لالہ و گل، باد نسیم کے جھونکے اور ندی نالوں کی سر سراہٹیں۔
یہاں زندگی کی
قراریں، شادمانیاں، بے فکری اور طمانیتوں کا راج ہوتا ہے۔
یہاں زندہ رہنے کےلئے
کوئی مشقت، دوڑ دھوپ نہیں، نہ لگژری لائف جینے کے لئے کسی محنت کی ضرورت۔
قدرت نے
مصنوعی آسائشوں سے مزین زندگی کے مقابلے میں یہاں فطری زندگی کے ٹھوس لوازمات مہیا
کئے ہیں۔
شہری زندگی میں انسان سہولیات و وسائل کے انبار لگا سکتا ہے لیکن فطری
چین و قرار کہیں سے نہیں خرید سکتا۔
جبکہ یہ زندگی مصنوعی سہولیات سے عاری مگر
روحانی خوشیوں سے لبریز ہوتی ہے۔
قلبی و روحانی لطافتوں کے ساتھ ان دشتوں میں
انسان فطرت کے عین روبرو ہوتا ہے۔
وہ اللہ تعالی کے تخلیقات اور ان کے اسرار کا
قریب سے مشاہدہ کرتا ہے۔
اس لئے خود حضور نبی کریم ؐ اور دیگر بڑے جلیل القدر
انبیائے کرام علیہ السلام نے برسوں بیابانوں اور دشتوں میں بکریاں چراے ہیں۔
ان
نظاروں اور یہاں کے موجودات سے انسان میں عقلی و فکری وسعت، شکر و ثناء کے جذبے،
وجد و کشف کی کیفیات ، اور قلبی و جسمانی مظبوطی و توانائی حاصل ہوتی ہے۔
میری من
کی پکار اکثر میرے دل کے نہاں خانوں سے برآمد ہوکر جسم پر بے چینی کردیتی ہے۔ بڑی
شدت سے یہ تمنا جاگتی کہ میں کسی طرح اڑ کر پہنچوں ان بیابانوں میں۔
میرے سنگ اور
اطراف میں صرف قدرت ہو، صرف فطرت، ٹھوس، حقیقی اور اصل، ہر ملاوٹ اور ہر مصنوعی
مصالحوں سے پاک و صاف۔ بس سکوت ہو، شہری زندگی کی کوئی رمق، کوئی ہنگامے اور کسی
قسم کی ہلچل نہ ہو۔
میں ظلم نہ دیکھوں, جبر کی باتیں نہ ہوں، حسد، بغض کینہ, فساد،
قتل غارت گیری، جیسے احساسات اور واقعات نہ ہوں۔ زندگی کی آسائشوں کے حصول کےلئے
کوئی مقابلہ اور کوئی بھاگ دوڑ نہ ہو۔
محرومیاں، غربت اور افلاس کا رونا نہ ہو نہ
دنیاوی عیش و نشاط اور شیطانی رنگینیوں میں غرقابی ہو۔
بس اجلی اور چمکیلی دھوپ
ہو، دشت وجنگل کی لامحدود نظارے ہوں جہاں میں بکریوں کا ریوڑ ہانکتا یہاں،وہاں
پھرتا رہوں۔
اور جب رات کو چاندنی کی لہریں زمین کے وجود پر تن جائیں تو میں کسی
پتھر سے ٹیک لگا کر چاند ستاروں سے باتیں کرتا رہوں۔
کاش
No comments:
Post a Comment