توقع
ہی نہ نہیں جب، کیا وفا کی آرزُو کرتے؟
مقدر میں نہیں جو، اُس کی پھر کیوں جستجُو کرتے؟
چلا کر پیٹھ پر خنجر بنے پھرتے ہوں فاتح کیوں؟
مزہ
جب تھا کہ ہر اِک وار میرے رُو برُو کرتے
ہماری خامشی کو اعترافِ جرُم مت سمجھو
مقابل ظرف والا ہو تو کوئی گفتگُو کرتے
وفا کے دیس میں شیوہ نہیں ہے بے وفائی کا
بھلا
کیسے رواجِ شہر کو بے آبرُو کرتے
لحاظِ عشق ہے، رسوائیاں سہہ کر بھی ہم چُب ہیں
تمہاری کج روی کا ورنہ چرچا، چار سُو کرتے
محبت نام ہوتا، لعل و گوہر، سِیم و زر کا،
پھر تمہارے نام ہم سارا، جہانِ رنگ و بُو کرتے
ملے اِک شام، تھوڑا جام، وہ بھی دستِ ساقی سے
لرزتے کانپتے ہونٹوں سے ہم ذکرِ سُبو کرتے
عطاء ہوتا ہمیں بھی عشق کا معراج گر عابدؔ
بلالیؔ ذوق میں جل جل کے وردِ وحدہٗ کرتے
ابنِ
عابدؔ (محمدبلال خان)
No comments:
Post a Comment