الف ۔ کی کہاوتیں
(۴۸) ازار بندی رشتہ :
یعنی
سُسرالی رشتہ۔ازار بندی عوامی استعارہ ہے۔
(۴۹) اُڑتی
چڑیا پہچانتے ہیں :
یہ فقرہ
بہت چالاک شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ یہ اتنے تیز ہیں کہ اُڑتی چڑیا کو دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ چڑیا ہے یا چڑا۔
(۵۰) اُڑتی چڑیا کے پر گنتے ہیں :
یہ کہاوت
بھی انھیں معنوں میں کہی
جاتی ہے جن میں ’’ اُڑتی چڑیا پہچانتے ہیں ‘‘ مستعمل ہے۔
(۵۱) اڑھائی ہاتھ کی ککڑی اور نو
ہاتھ کا بیج :
یعنی
ماں سے کہیں زیادہ تیز و طرّار اُس کا بچہ نکلا۔ گویا یہاں بیج سے مراد بچہ ہے اور ککڑی سے اس کی ماں۔
(۵۲) اُڑ کے منہ میں کِھیل نہیں
گئی :
کھیل یعنی
مکا کا بھنا ہوا دانا جو پھول کر ہلکا ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب تک کچھ بھی نہیں کھایا اور مکمل فاقہ سے ہیں۔
(۵۳) اِسے چھُپاؤ، اُسے
دِکھاؤ :
یعنی دو
شخص اتنے ہم شکل ہیں کہ ایک کو چھُپا کر
اُس کی جگہ دوسرے کو دِکھا دیا جائے تو لوگ تمیز نہیں کر سکتے۔
(۵۴) اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ
لے :
کسی بات
یا کام کا صلہ فوراً ہی مل جائے تو یہ کہاوت استعمال ہوتی ہے۔ یہ نظیرؔ اکبر آبادی
کے ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے:
(۵۵) اَسّی
برس کی عمر، نام میاں معصوم :
اتنی
عمر آ گئی لیکن اب تک بچے ہی بنے ہوئے ہیں۔
(۵۶) اس برتے پر تتا پانی :
اتنی کم
حیثیت اور باتیں اتنی بڑی بڑی ؟ اسے ’’کس
برتے پر تتّا پانی‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۵۷) اُس کی جوتی،ا ُسی کا سر :
یعنی
غلط کام کرنے والے نے جو گستاخی یا توہین آمیز بات کی تھی وہ لوٹا کر اسی کے منھ
پر مار دی گئی۔ اس طرح وہ جوتا جو اُس نے کسی کی بے عزتی کی نیت سے اُٹھایا تھا
خود اسی کے سر پر پڑ کر اس کی بے عزتی کا سبب بن گیا۔
No comments:
Post a Comment