سورۃ
الحشر
اس سورہ کا
دوسرا نام ’’سورہ بنی النضیر‘‘ ہے کیونکہ اس
میں قبیلہ بنی نضیر کے محاصرے اور پھر جلاوطن کئے جانے کا تذکرہ ہے۔ یہودیوں کے
ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا، مگر وہ اپنی سازشی طبیعت کے مطابق خفیہ طریقہ پر
مشرکین مکہ کی حمایت اور مسلمانوں کی مخالفت میں سرگرداں رہتے۔ غزوۂ احد کے موقع
پر مشرکین کے غلبہ سے ان کی سازشیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کا محاصرہ کرکے ان کی جلاوطنی کا فیصلہ کیا جس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔ انہیں
کہا گیا تھا کہ جاتے ہوئے جو چیز ساتھ لے جاسکتے ہو لے جائو، چنانچہ انہوں نے اپنے
مکانات کو توڑ کر ان کا ملبہ بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ نئی جگہ پر
آبادی میں تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کرسکیں اور ان کے چلے جانے کے بعد مسلمان
ان کے گھروں کو استعمال نہ کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورتحال کو ان کے لئے دنیا
کا عذاب قرار دیا اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہوگا۔ جنگ کے بغیر کافروں کا جو
مال مسلمانوں کو ملے وہ ’’فئے‘‘ کہلاتا ہے اور جنگ کے نتیجہ میں جو ملے وہ ’’غنیمت‘‘ کہلاتا ہے۔ ’’فئے‘‘ کا مصرف بتایا کہ اللہ کے نبی کی گھریلو ضروریات اور
غرباء و مساکین اور ضرورتمند مسافروں کے استعمال میں لایا جائے گا۔ پھر اسلامی
معیشت کا زریں اصول بیان کردیا کہ مال کی تقسیم کا مقصد مال کو حرکت میں لانا ہے
تاکہ چند ہاتھوں میں منجمد ہوکر نہ رہ جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی
اہمیت جتلانے کے لئے حکم دیا کہ آپ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہے، لہٰذا اگر وہ آپ
لوگوں کو کوئی چیز دینے کا فیصلہ کریں تو وہی لینی ہوگی اور اگر کسی سے منع کردیں
تو اس سے باز رہنا ہوگا۔ پھر انصار مدینہ کی وسعت قلبی کی تعریف کرتے ہوئے بتایا
کہ ایمان کی بنیاد پر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کو انہوں نے اپنے معاشرہ میں
سمونے کے لئے اس قدر محبتیں دیں کہ اپنی ضرورتوں پر مہاجرین کی ضروریات کو ترجیح
دی اور اپنے دلوں میں کسی قسم کا بغض یا نفرت نہیں پیدا ہونے دیا۔ پھر منافقین کے
یہودیوں کی حمایت کرنے پر مذمت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عقل و فہم سے عاری
ہونے کی بناء پر اس قسم کی ناجائز حرکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد تقویٰ اور
آخرت کی تیاری کی تلقین فرمائی ہے اور قرآن کریم کی قوت تأثیر کو بیان کیا ہے
کہ جب پتھروں اور پہاڑوں پر بھی یہ کلام اثر انداز ہوسکتا ہے تو انسان پر تو
بدرجۂ اولیٰ اس کی تاثیر ظاہر ہونی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment