سائل کو مت
دھتکارو
کل
رات ایک دوست کی دعوت میں ایک مقامی ہوٹل جانا ہوا، عام ہوٹل تھا کوئی خاص نہیں،
وہاں پہلے سے بہت سارے لوگ مختلف گروپوں میں آئے ہوئے بیٹھے تھے.اور ہم سے زرا
قریب پہلے سے بیٹھے ہوئے دو بندے کھانا کھا رہے تھے ان کی حالت سے لگتا تھا تھکے
ہوئے ہیں کہیں سفر سے آئے ہیں، ہم سب سے زرا ہٹ کر بیٹھا ہوا ایک خستہ حال شخس
پریشانی کی حالت ميں ان کھانا کھانے والوں کی طرف للچائی ہوئی نظر سے دیکھ رہا تھا
۔
کبھی
اس کی طرف تو کبھی اس کی طرف... نہ
وہ کسی سے مانگتا تھا پتہ نہیں کیا چیز تھی جو اس کو مانگنے سے روک رہی تھی نہ
وہاں س چلا گیا، ہمارے قریب کھانا کھانے والے ان دو بندوں میں سے ایک نے اس کو
اشارے سے بلایا ساتھ بیٹھا کر پوچھا کھانا کھاؤ گے؟ جواب میں اس نے کچھ بولا نہیں
خاموش رہا
.
تو اس اللہ والے نے اپنے کھانے کی پلیٹ اس کے سامنے رکھ کر
کہا یہ لو آرام سے کھاؤ، تو اس نے کھانے کو اتنے جلدی جلدی کھانے لگا کہ ایسا لگ
رہا تھا جیسے وہ کئی دنوں سے بھوکا ہو ابھی جلدی نہ کھائے تو کوئی آکر اس سے چھین
لے گا. اس آدمی کو اس کا دوسرا ساتھی آہستہ کہنے لگا آپ میرے ساتھ شریک ہو جاؤ ہم
نے بھی آج صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے اور پیسے بھی نہیں ہے صرف کرایہ کیلئے بچتے
ہیں ، وہ کہنے لگا نہیں میں سیر ہوچکا ہوں اور وہ بہت خوش نظر آرہا تھا ساتھ اس
فقیر کو کھانا کھاتا ہوا دیکھتا رہا. جب
ہمارا کھانا آگیا تو ہم نے اس کو بہت کوشش کی کہ ہمارے ساتھ کھانا کھالیں لیکن وہ
نہیں مانا، اس منظر کو دیکھ میرے آنکھوں میں آنسوں آنا تو لازمی بات تھی پر میں نے
اپنے دوستوں کی آنکھوں میں بھی نمی محسوس کی. اس پر میرا ایک دوست کہنے لگا جب تک
ایسے لوگ زندہ ہیں ہمیں عذاب کا کوئی خوف نہیں.میں نے کہا سچ کہا ہے ایسے اللہ
والے جب تک موجود ہیں اللہ تعالیٰ عذاب نہیں دےگا
.
الحاصل ہم لوگ روزانہ کتنے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو
دربدر پھرتے ہیں ہر اس آدمی کے پیچھے بھاگتے ہیں جس سے کچھ ملنے کی امید ہوتی ہے،
لیکن ہم ان کو پشہ ور کہکر دھتکارتے ہیں، اگر کوئی بھائی ترس کھا کر دیتا ہے اس کو
بھی منع کرتے ہیں، دیکھو بھائی ہمیں کیا معلوم یہ پیشہ ور ہے واقعی مستحق ہے،
ہمارے دس روپے دینے سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر کسی غریب کا چولہا ضرور
جلے گا... اللہ تعالٰی ہمیں
جتنا کچھ دیتا ہے، وہ سب کا سب ہمارے لئے نہیں ہوتا ہے۔
اس میں دوسروں کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی
نے دوسروں کا حصہ ہمارے پاس امانتا" دیا ہوتا ہے۔اللہ تعالٰی چونکہ سب کا
خالق ہے۔ وہ سب کو رزق مہیّا کرنے کا ذمہ دار ہے، چاہے وہ نیک پارسا ہو یا کوئی
شیطان صفت ہو۔ اللہ تعالٰی نے کسی کو بھی اس کے حصے کا رزق کس طرح بہم پہونچانا ہے
یہ اللہ تعالٰی کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔کسی شخص کو ہم رحم کھا کر اس کی مدد
کردیتے ہیں، کسی کو ہم تحفتہ" کچھ عنایت کردیتے ہیں اور کسی کو ہم قرض دیدیتے
ہیں، کسی کو ہم برضا و رغبت یا خوشی خوشی دیدیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے
یہ سب اللہ تعالٰی کرواتا ہے۔ اس طرح ہمارے پاس جو حصہ امانتا" رکھا گیا تھا،
وہ اللہ تعالٰی نے اپنی حکمت سے پہونچا دیا. اور قرآن وحدیث میں غریبوں کو کھانا کھلانے کی بہت زیادہ فضائل ذکر ہے،
کھانا کھلانا اور اس میں توسع اور سخاوت کا مزاج اہل جنت کے اوصاف ہیں کہ اللہ پاک
نے اہل جنت کے اعمال میں اسے ذکر کیا ہے ۔
اس
کے برخلاف کھانا نہ کھلانا ،اس میں بخل کرنا ، باوجود ضرورت کے اس میں تنگی کرنا
،یا کھلانے کا مزاج ہی نہ ہونا ،یہ کافراہل جہنم کے اوصاف ہیں ۔چنانچہ اس سوال کے
جواب میں کہ کن اعمال نے تم کو جہنم میں پہنچایا ۔ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَر اس کے
جواب میں وہ نمازکا نہ پڑھنا ۔مسکینوں کو کھانا نہ کھلانا باطل میں مشغول رہنا ذکر
کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں...
آمین
تحریر
مفتی محبوب عالم صاحب
No comments:
Post a Comment