محبت
مستقل غم ہے محبت غم کا گہوارہ.
جو
آنسو رنگ لے آئے وہی دامن کا شہ پارہ
جسے
ارماں کا خوں دے کر بنامِ آرزو سینچا
خدا جانے کہاں ہے
وہ جہانِ زندگی آرا
مرا
ذوقِ خریداری ہے اک جنسِ گراں مایہ
کبھی پھولوں کا
شیدائی کبھی کانٹوں کا بنجارہ
جہاں
منصب عطا ہوتے ہیں بے فکر و فراست بھی
وہاں ہر جستجو
جھوٹی وہاں ہر عزم ناکارہ
بسا
اوقات چھو لیتی ہے دامن کبریائی کا
تمہاری جنبشِ
اَبرو مری تخلیق آوارہ
نجانے
محتسب کیوں میکدے کا نام دیتے ہیں
جہاں کچھ آدمی
کرتے ہیں اپنے درد کا چارہ
ترے
گیسو خیالوں کی گرفتِ ناز سے گزرے
کہ جیسے ایک جوگی
بن میں لہراتا ہے دو تارہ
پلٹ
آئے ہیں شاید انقلابِ دید کے لمحے
نظر کی وسعتوں میں
ڈوبتا جاتا ہے نظارہ
فقط
اک بات میں ٹوٹا ہوا ساغر اٹھانے سے
لرز اٹھا ہے اے
یزداں تری عظمت کا مینارہ
محبت
مستقل غم ہے، محبت غم کا گہوارہ
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment