میں تلخی حیات سے ' گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات
سے ' گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ھیں ' ان سے گلہ ھی کیا
پھولوں کی
واردات سے ' گھبرا کے پی گیا
چھلکے ھوئے تھے جام ' پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات
سے ' گھبرا کے پی گیا
میں آ د می ھوں ' کوئی فرشتہ نہیں حضور۔۔۔
میں آج اپنی ھی
ذات سے ' گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رھے تھے ' پی لیجئے حضور۔۔
کچھ ان کی
گزارشات سے ' گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment