ج۔کی
کہاوتیں
(۱) جاٹ مرا تب جانئے جب
تیرھویں ہو جائے :
تیرھویں یعنی کسی کے
مرنے کے تیرھویں دِن ہونے والی رسم۔جاٹ بہت سخت جان اور جفا کش مشہور ہیں اس
لئے ان کا نام لیا گیا ہے۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ جب تک کسی معاملہ کی اچھی طر ح
تصدیق نہ ہو جائے اس پر یقین نہیں کر نا چاہئے اور تحقیق جاری رکھنی چاہئے۔ اس
کہاوت کے پس منظر میں ایک حکایت بیان کی جاتی ہے۔ ایک جاٹ نے ایک بنئے سے
قرض لیا۔وقت کے ساتھ سود کی وجہ سے قرض کی رقم بڑھتی گئی اور جاٹ کسی طرح اسے ادا
نہ کر سکا۔ جب بنئے کے تقاضے بہت بڑھ گئے تو اس نے عاجز آ کر اپنی فرضی موت کی خبر
بنئے تک پہنچا دی۔ بنیا کف افسوس ملتا رہ گیا۔حادثہ کی تصدیق کے لئے وہ جاٹ کے
گاؤں گیا اور اس کے گھر والوں سے تعزیت بھی کر آیا۔سب نے اپنے عزیز کی
موت پر بہت رنج کا اظہار کیا۔ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد بنئے کو ایک قریبی
گاؤں میں کسی کام سے جانا پڑا۔وہاں اس نے بازار میں اُس
جاٹ کو گھومتے پھرتے دیکھا تو بھوچکا رہ گیا۔لوگوں سے گھبرا کر پوچھا تو
انھوں نے کہا کہ ’’ شاہ جی ! جاٹ مرا تب جانئے جب تیرھویں ہو جائے۔‘‘
(۲) جان بچی اور
لاکھوں پائے :
مشکل وقت میں جان بچ جائے تو یوں سمجھئے کہ
لاکھوں روپے مل گئے۔ اسی کو ایک اور شکل میں بھی کہا جاتا ہے کہ’’ جان
بچی اور لاکھوں پائے، خیر سے بدّھو گھر کو آئے‘‘۔
(۳) جان ہے تو جہان ہے
:
اگر زندگی ہے تو سب کچھ ہے ورنہ سب بیکار ہے۔کہاوت کا مطلب اور محل استعمال
ظاہر ہے۔
( ۴) جان نہ پہچان، بی بی جی
سلام :
بغیر کسی جان پہچان کے
کوئی کسی سے قرابت جتانے لگے اور کسی صلہ کا اُمیدوار ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی
ہے۔
(۵) جا کو راکھے سائیاں
مار سکے نہ کوئے :
سائیاں یعنی مالک یا
خدا۔ جس کے سر پر اللہ کا سایہ ہو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اِس کی
ایک اور شکل بھی عام ہے یعنی’’ جسے اَللہ رکھے، اُسے کون چکھے؟‘‘
No comments:
Post a Comment