چ ۔ کی کہاوتیں
(۴۷) چھٹی کا دودھ یاد آ گیا
:
بچہ
کی پیدائش کے چھٹے دن اس کا سر مونڈا جاتا ہے( مونڈن، عقیقہ)۔ یہ نہیں معلوم
کہ یہاں اس دن کا دودھ کیوں مذکور ہے۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ بڑی تکلیف
اٹھائی یا بہت بڑی آزمائش سے گزرے۔
(۴۸) چھیلی گئی جی سے، پھاپھا کُٹنی کو
بھاویں ہی نہیں :
چھیلی یعنی کمسن لڑکی۔ کُٹنی یعنی
نہایت چال باز اور فریب کار عورت جس کو دوسروں کی لگائی بجھائی میں
مزا آتا ہو۔ پھاپھا تحقیر کا لفظ ہے اور عورتوں کی مخصوص زبان ہے۔جی
سے گئی یعنی جان سے گئی۔ بھاویں نہیں یعنی بھاتا ہی نہیں۔ کہاوت کا مطلب یہ
ہوا کہ بیچاری معصوم لڑکی کی تو زندگی تباہ ہو گئی لیکن ظالم کٹنی کو پھر بھی چین
نہیں آیا۔ جب کسی کی فریب کاری سے کسی اَور کا بہت نقصان ہو چکا ہو لیکن پھر بھی
وہ اُس کے در پے آزار ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۴۹ ) چیونٹی کی موت آتی ہے تو اُس کے پر
نکل آتے ہیں :
عام مشاہدہ ہے کہ چیونٹی کے پر نکل آئیں
تو وہ چراغ کی جانب جاتی ہے اور جل کر مر جاتی ہے۔پَر نکلنا یعنی غرور کا
شکار ہونا۔ کسی کے بر ے دن آتے ہیں تو اس میں غرور و تکبر پیدا ہو
جاتا ہے اور پھر بہت جلد وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتا ہے۔
( ۵۰) چیل کے گھونسلے میں ماس
کہاں :
ماس یعنی گوشت۔ یہ اُمید کرنا کہ چیل کے
گھونسلے میں گوشت مل جائے گا بے کار بات ہے۔ یہ فقرہ مرزا غالبؔ کے ایک شعر
کا دوسرا مصرع ہے۔مشہور ہے کہ مرزا غالبؔ کے چہیتے پوتے ان کی صندوقچی کھول
کر اس میں پیسے تلاش کر رہے تھے۔ مرزا صاحب نے یہ دیکھ کر فی البدیہہ شعر
کہا کہ ؎
پیسہ دھیلا ہمارے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
(۵۱) چیونٹی بھی دبنے پر کاٹ لیتی
ہے :
چیونٹی ایک نہایت حقیر کیڑا ہے لیکن اگراُسے بھی
چھیڑا جائے تو وہ بھی اپنے دفاع میں کاٹ لیتی ہے۔ یعنی کوئی شخص کتنا ہی
کمزور ہو اگر اپنے حالات سے عاجز آ جائے تو اپنی مقدرت بھر وہ بھی کچھ نہ کچھ کر
بیٹھتا ہے۔
چھلانگ زدہ
ReplyDelete