خزاں کے جانے سے
ہو یا بَہار آنے سے
چمن میں پھول
کھلیں گے کسی بہانے سے
وہ دیکھتا
رہے مُڑ مُڑ کے سوئے در کب تک
جو کروٹیں بھی
بدلتا نہیں ٹھکانے سے
اُگل نہ سنگِ
ملامت خدا سے ڈر ناصح
ملے گا کیا تجھے
شیشوں کے ٹوٹ جانے سے
زمانہ آپ کا ہے
اور آپ اس کے ہیں
لڑائی مول لیں
ہم مُت کیوں زمانے سے
خدا کا
شکر سویرے سے ہی آ گیا قاصد
میں بچ گیا شبِ
فرقت کے ناز اٹھانے سے
میں کچھ کہوں نہ
کہوں کہہ رہی ہے خاکِ جبیں
کہ اس جبیں کو
ہے نسبت اِک آستانے سے
قیامت آئے قیامت
سے میں نہیں ڈرتا
اُٹھا تو دے
کوئی پردہ کسی بہانے سے
خبر بھی ہے تجھے
آئینہ دیکھنے والے
کہاں گیا ہے دو
پٹّہ سرک کے شانے سے
یہ زندگی بھی
کوئی زندگی ہوئی بسملؔ
نہ رو سکے نہ
کبھی ہنس سکے ٹھکانے سے
No comments:
Post a Comment