ایک افریقی حکایت
دن کے وسط میں ایک گھوڑا
گاڑی تارکول کی سڑک پر ایک منزل کی جانب روانہ ہے۔ گاڑی بان کے داہنے ہاتھ میں
چابک ہے۔ سورج سر پر ہے اور گھوڑا گاڑی کا سایہ تارکول کی سڑک پر۔ سڑک کے دونوں
جانب لکڑی کے بنے ہوے مکانات ہیں۔ کہیں کہیں رسیوں پر رنگ برنگے کپڑے سوکھ رہے ہیں۔
مکانوں کے پیچھے جنگل، اتنا جنگل کہ سورج کی روشنی زمین کا بوسہ نہیں لے سکتی۔ دن
کے وسط میں گھوڑا چکرا کے گر پڑتا ہے۔ لوگوں کا ہجوم بڑھتا جاتا ہے۔ گاڑی بان
گھوڑے کی لگام کو آزاد کرتا ہے اور چار دوسرے سیاہ فاموں کے ساتھ گھوڑے کو اٹھانے
کی کوشش کرتا ہے۔ گھوڑے کی آنکھوں میں بے چارگی کا آسمان ہے۔ پرندوں اور بادلوں سے
خالی آسمان اور ایک تیز تپتا ہوا سورج۔ گاڑی بان چابک کی مدد سے گھوڑے کو اٹھانا
چاہتا ہے لیکن کوئی تدبیر بھی کارگر نہیں ہوتی۔ ایک عورت مکان کی بالکنی سے یہ
تماشا دیکھ رہی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ، پیچدار چوبی زینے کو طے کرتی ہوئی گرے ہوے
گھوڑے تک پہنچتی ہے اور اس کے کان میں کچھ کہتی ہے۔ گھوڑا فوراً کھڑا ہو جاتا ہے،
گاڑی بان لگام کستا ہے اور منزل کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔ عورت اپنی بالکنی پر
واپس آ جاتی ہے۔ اس کا مرد پوچھتا ہے : ’’تم نے گھوڑے کے کان میں کیا کہا؟‘‘ سیاہ
فام عورت کہتی ہے : ’’میں نے گھوڑے سے کہا:‘میں وہ ہوں جسے اپنے مرد سے پہلے کسی
نے چھوا ورنہ ہی اُس کے بعد، اگر تو اس سچ پر یقین رکھتا ہے تو کھڑا ہو جا۔ ‘‘
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment